Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چائے کی دریافت سے پہلے لوگ کیا پیتے تھے؟

آج کشمیر، گلگت بلتستان اور چترال میں نمک والی چائے کا رواج عام ہے۔ (فوٹو: ٹوئٹر)
حال ہی میں چائے کا عالمی دن منایا گیا۔ چائے ہے ہی ایک عالمی مشروب اور کسی بھی مشروب سے زیادہ پی جاتی ہے۔ معلوم نہیں اس کا دن منا کر اسے اور کتنا مقبول بنانا ہے اور کیوں بنانا ہے۔
چائے کا اصل وطن چین ہے، جہاں لوگ ہزاروں سال سے اسے پیتے رہے۔ وہاں سے رفتہ رفتہ یہ وسط ایشیا میں پھیلی۔ باقی دنیا میں چائے کو متعارف کرانے کا سہرا یورپ کے لوگوں کے سر ہے۔
یورپ سے مشرق کی طرف سمندری راستوں کی دریافت کے بعد ایک عرصے تک زیادہ تجارت چائے کی رہی، اور یوں یہ مشروب ساری دنیا میں پھیل گیا۔
چائے کی تجارت نے جہاز رانی کے فروع میں اہم کردار ادا کیا۔ اسی طرح بین الاقوامی سیاست اور تاریخ پر بھی چائے نے اپنے اثرات چھوڑے۔ 
انگریزوں کی عظیم سلطنت کے قیام میں چائے کی تجارت کا کردار اہم ہے۔ اسی طرح موجودہ دنیا کی سپر پاور امریکہ کے قیام کا سبب بننے والی جنگ چائے پر لگائے گئے ٹیکس سے شروع ہوئی۔ انگریزوں نے اپنے زیر قبضہ علاقوں میں اس کی کاشت کو متعارف کرایا اور اسی لیے انڈیا، بنگلہ دیش، سری لنکا، کینیا وغیرہ چائے کی پیداوار میں سرفہرست ہیں۔
چائے جہاں پہنچی، وہاں کے مقامی کلچر اور موسم کے مطابق ڈھل گئی۔ چینی لوگ اسے بغیر دودھ اور چینی کے پیتے ہیں۔  چترال میں چینی لوگ سڑک بنا رہے تھے۔ ان کے کیمپ میں گئے تو دیکھا کہ ایک بڑی دیگ میں پانی ابل رہا ہے۔ پوچھا تو بتایا کہ چائے ہے۔ حالانکہ ہمیں صاف پانی لگتا تھا۔ معلوم ہوا کہ وہ اتنے سارے پانی میں ایک چٹکی چائے کی پتی ڈال کر ابال لیتے ہیں۔ یہی ان کی چائے ہے جسے وہ دن بھر پانی کی جگہ اور کھانے کے ساتھ پیتے رہتے ہیں۔ انگریزوں نے چائے میں دودھ اور چینی ملا کر اسے خوش ذائقہ بنایا۔ ان سے سیکھ کر دنیا میں اکثر لوگ اسی طرح پیتے ہیں۔
لیکن چائے ہر جگہ ایسی نہیں ہوتی۔ چائے کے پتوں کو دھوپ میں سکھانے سے عام چائے بنتی ہے جسے ہم کالی چائے کہتے ہیں۔ لیکن اگر سکھانے سے پہلے انہیں پانی میں ہلکا سا اُبال لیا جائے تو یہ قہوہ یا سبز چائے بن جاتی ہے۔ اس کا ذائقہ چائے سے ہلکا ہوتا ہے اور یہ بغیر دودھ کے پی جاتی ہے۔

نمک والی چائے میں اگر ملائی کے ساتھ مصالحے جیسے ادرک، جائفل، فلفل، کالی مرچ اور ہلیلہ ڈال دیے جائیں تو یہ کمال کی چیز بن جاتی ہے۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

پشاور کا قہوہ مشہور ہے جو چھوٹی چھوٹی پیالیوں میں کھانے کے بعد اور ویسے بھی بہت پی جاتی ہے۔ افغان لوگ سیاہ چائے کو ذرا ہلکا بنا کر بغیر دودھ کے پیتے ہیں جو سلیمانی کہلاتی ہے۔ اس میں چینی نہیں ڈالتے بلکہ کھانڈ کی مٹھائی منہ میں رکھ کر چائے پیتے رہتے ہیں۔ ہمارے علاقے چترال میں گڑ کی چائے بھی کسی زمانے میں مقبول تھی لیکن اب اس کا رواج تقریباً ختم ہو چکا ہے۔
مولانا ابولکلام آزاد ایک خاص قسم کی چائے کا ذکر کرتے ہیں جو وہ مصری شکر ڈال کر بغیر دودھ پیتے تھے۔ شاید وہ سرخی مائل قہوہ ہے جو جیسمین ٹی کے نام سے چین سے آتی ہے۔
چینی لوگ دودھ اور اس کی مصنوعات کا استعمال کم کرتے ہیں اس لیے وہ چائے کو بغیر کسی اضافے کے پیتے رہے۔ یہ مشروب جب وسط ایشیا میں پہنچا تو یہاں اس میں دودھ کا اضافہ ہوا، اور ساتھ نمک کا بھی۔ پھر اس میں مغزیات (بادام، پستہ، اخروٹ) بھی ڈالے جانے لگے۔ اس طرح چائے ایک سکون بخش مشروب سے زیادہ مقوی خوراک بن گئی۔ اب کا تو معلوم نہیں لیکن ایک سو سال پہلے ترکستان کے لوگ اس چائے کو کھانے سے پہلے کلچے اور مٹھائیوں کے ساتھ پیتے تھے۔
ہمارے کسی مزاح نگار نے لکھا ہے کہ لاہوری لوگ چائے کے بہانے دودھ پیتے ہیں۔ لیکن وہ اگر وسط ایشیا کی چائے پیتے تو لاہوری چائے کو بھول جاتے۔
ترکستان سے اس قسم کی چائے پاکستان کے شمالی پہاڑی علاقوں میں پہنچی۔ آج کشمیر، گلگت بلتستان اور چترال میں نمک والی چائے کا رواج عام ہے۔
نمک والی چائے میں اگر ملائی کے ساتھ مصالحے جیسے ادرک، جائفل، فلفل، کالی مرچ اور ہلیلہ وغیرہ  ڈال دیے جائیں تو یہ کمال کی چیز بن جاتی ہے۔ کشمیری چائے باقی پہاڑی علاقوں سے ذرا مختلف بنائی جاتی ہے۔

کسی مزاح نگار نے لکھا ہے کہ لاہوری لوگ چائے کے بہانے دودھ پیتے ہیں۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

بی بی سی ٹی وی نے کئی سال پہلے چائے کے بارے میں ایک ڈاکومینٹری دکھائی تھی جس میں دنیا کے مختلف حصوں میں پی جانے والی چائے دکھائی گئی تھی۔ اس میں مجھے مراکش اورمنگولیا  کی چائے یاد ہے۔ اول الذکر اونٹ اور دوسری گھوڑی کے دودھ سے بنتی ہے۔
ہمارے سرد علاقوں میں لوگ چائے بہت پیتے ہیں۔ بہت سے لوگوں تو اس کے addict  ہی ہوجاتے ہیں۔ ہمارے ایک بھائی صوبیدار ایسے ہی تھے۔ وہ بتاتے تھے کہ جنگ کے محاذ پر جب اوپر فائرنگ آرہی ہوتی، چائے کی طلب کے آگے وہ بے بس ہوجاتے۔ ایسے وقتوں کے لیے وہ چائے کی پتی پوٹلی میں باندھ کر جیب میں رکھتے اور تھوڑی پتی منہ میں ڈال کر بوتل سے پانی پی لیتے۔ میں ذاتی طور پر چائے کا زیادہ رسیا نہیں۔ پھر بھی سوچتا ہوں کہ چائے کی دریافت سے پہلے لوگ کیا پیتے تھے اور ان کا وقت کیسے گزرتا تھا۔ خصوصاً صبح آنکھ کیسے کھلتی تھی۔

شیئر: