Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں سیاسی ہلچل سے بھرپور ہفتے کا آغاز، عدالتی محاذ بھی گرم رہے گا

ابھی تک حکومت کی جانب سے پی ٹی آئی کے مارچ کو روکنے یا نہ روکنے کے حوالے سے کوئی حکمت عملی سامنے نہیں آئی (فائل فوٹو: اے ایف پی)
یوں تو پاکستان میں گزشتہ دوماہ سے مسلسل سیاسی ہلچل کا ماحول ہے مگر رواں ہفتے میں پے در پے کئی ایسے اہم واقعات رونما ہونے ہیں جن کے ملک کے مستقبل کے سیاسی منظرنامے پر گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
اتوار کو پشاور میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے 25 مارچ کو اسلام آباد کی سری نگر ہائی وے پر لانگ مارچ اور دھرنے کا اعلان کیا گیا۔
پی ٹی آئی نے اعلان کر رکھا ہے کہ موجودہ اتحادی حکومت کی جانب سے الیکشن کے اعلان تک وہ اپنا احتجاج جاری رکھیں گے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اس مارچ میں لاکھوں افراد شرکت کریں گے۔
ابھی تک حکومت کی جانب سے پی ٹی آئی کے مارچ کو روکنے یا نہ روکنے کے حوالے سے کوئی حکمت عملی یا اعلان سامنے نہیں آیا۔
پیر کو حکومتی اتحادی جماعتوں کا ایک اجلاس وزیراعظم شہباز شریف کی زیرصدارت ہو رہا ہے جس میں سابق وزیراعظم عمران خان کے احتجاج سے نمٹنے کی حکمت عملی طے کی جائے گی۔

مشکل معاشی صورتحال میں آئی ایم ایف سے مذاکرات

دوسری طرف ملک کی گھمبیر معاشی صورتحال میں اس ہفتے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں پاکستانی حکومت کے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے ساتھ مذاکرات ہونے ہیں۔
ماہرین کے مطابق اگر مذاکرات کامیاب ہو جاتے ہیں اور پاکستان کو آئی ایم ایف سے اگلی قسط جاری ہو جاتی ہے تو فوری طور پر معاشی بحران کسی حد تک ٹل جائے گا کیونکہ اس کے نتیجے میں دوست ممالک اور دیگر بین الاقوامی اداروں کی جانب سے بھی پاکستان کو رقم ملنے کا امکان ہے۔
تاہم آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کی کامیابی اپنے ساتھ مہنگائی کا طوفان بھی لا سکتی ہے کیونکہ گزشتہ حکومت میں کیے گئے معاہدے کے تحت پاکستان کو پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں پر دی جانے والی سبسڈی واپس لینا ہوگی اور نتیجتا ملک میں پیٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں 50 سے 100 روپے لیٹر تک کا اضافہ کیا جا سکتا ہے۔

پیر کو حکومتی اتحادی جماعتوں کا اجلاس وزیراعظم شہباز شریف کی زیرصدارت ہو رہا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

معاشی امور کے تجزیہ کار خرم حسین کے مطابق آئی ایم ایف سے مذاکرت کی کامیابی ممکن مگر مشکل ہے۔
’مشکل اس لیے ہے کیونکہ آئی ایم ایف نے کہا کہ جلد سے جلد پیٹرول کی بڑھانے پر سے پابندی اٹھائیں۔ لیکن مفتاح صاحب کہہ رہے ہیں کہ وہ ایک منصوبہ لے کر جا رہے ہیں جس میں پیٹرول کی قیمت بڑھائے بغیر ہی مالیاتی خسارہ کم کیا جا سکتا ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ بدھ کو آئی ایم ایف کیا فیصلہ کرتی ہے۔‘
وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ سمیت کئی وزرا کہہ چکے ہیں کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ نہ ہونے کی صورت میں موجودہ حکومت اپنے مستقبل کا فیصلہ کر سکتی ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق 25 مئی کو آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ نہ ہونے کی صورت میں وزیراعظم شہباز شریف اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اعلان کر سکتے ہیں جس سے ملک میں نگران حکومت کے قیام اور نئے الیکشن کی راہ ہموار ہو جائے گی۔

عدالتوں میں اہم مقدمات کی سماعت اور متوقع فیصلے

اسی ہفتے سپریم کورٹ کی جانب سے فوجداری مقدمات پر اثرانداز ہونے کی مبینہ کوشش پر ازخود نوٹس کی سماعت بھی ہونی ہے جس کے فیصلے کے بعد وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔
گزشتہ سماعت پر سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا کہ ہائی پروفائل مقدمات میں پراسیکیوشن اور تحقیقات برانچ میں تاحکم ثانی تبادلے اور تقرریاں نہیں کی جائیں گی۔
جمعرات کو چیف جسٹس جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجز بنچ نے ازخود نوٹس کی سماعت کی تھی اور نیب اور ایف آئی اے کو تاحکم ثانی کوئی بھی مقدمہ واپس لینے سے روک دیا تھا۔

ملک کی مشکل معاشی صورتحال میں پاکستانی وفد کے آئی ایم ایف سے مذاکرات اہمیت کے حامل ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

سپریم کورٹ نے سماعت کے آغاز پر اپنے مختصر حکم نامے میں وفاقی سیکریٹری داخلہ، ڈی جی ایف آئی اے، چیئرمین نیب، ریجنل ڈائریکٹرز نیب، صوبائی ایڈووکیٹ جنرل، صوبائی پراسیکیوٹرز جنرل، نیب اور ایف آئی اے کے ہیڈ آف انویسٹی گیشن اور پراسیکیوشن کو نوٹس جاری کیے۔
عدالت نے تمام افسران کو حکم دیا کہ وہ اپنے جوابات تحریری طور پر عدالت میں جمع کرائیں جن میں چھ ہفتوں میں ہائی پروفائل مقدمات کی پراسیکیوشن اور انوسٹی گیشن پر مامور افسران کے تقرر، تبادلوں اور ان کو عہدوں سے ہٹائے جانے اور مقدمات کی واپسی سے متعلق تمام حقائق اور اس سے متعلق مواد اور وضاحت شامل ہو۔
سپریم کورٹ نے ہدایت کی کہ ہٹائے گئے افسران اور ان کی جگہ پر تعینات ہونے والے افسران کے نام بھی عدالت میں پیش کیے جائیں۔
اسی طرح عدالت نے ہدایت کی کہ ای سی ایل سے نکالے گئے افراد کے نام اور مقدمات کی تفصیل سے بھی آگاہ کیا جائے جبکہ ای سی ایل سے نام نکالے جانے کے موجودہ اور ماضی کے طریقہ کار سے بھی آگاہ کیا جائے۔
اس کے علاوہ رواں ہفتے اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے سابق گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ کا کیس بھی زیر سماعت آئے گا۔ اگر معزز عدالت پی ٹی آئی کی درخواست پر ان کی بحالی کا فیصلہ کر دے تو یہ پارٹی کی بڑی سیاسی اور قانونی فتح بھی ہو گی جس کے پنجاب حکومت پر گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

تحریک انصاف کا انتخابات کے اعلان کے مطالبے کے لیے لانگ مارچ 25 مئی کو اسلام آباد پہنچے گا۔ فوٹو: اے ایف پی

بحالی کے بعد گورنر عمر سرفراز موجودہ وزیراعلی حمزہ شہباز کو اعتماد کا ووٹ لینے کی ہدایت دے سکتے ہیں جس سے مسلم لیگ نواز کی صوبائی حکومت بڑی مشکل میں آجائے گی کیونکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے گزشتہ ہفتے پی ٹی آئی کے 25 منحرف ارکان کی رکنیت ختم کرنے کے بعد حمزہ شہباز پنجاب اسمبلی میں سادہ عددی اکثریت کھو چکے ہیں۔
تاہم مسلم لیگ نواز کا دعوی ہے کہ ایک آدھ ووٹ سے موجودہ صوبائی اسمبلی میں اکثریت حاصل کر سکتی ہے۔
دوسری طرف پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ ان کے امیدوار اور سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہی کو سادہ اکثریت حاصل ہے۔ پنجاب کی اہمیت کے باعث اگر مسلم لیگ ن صوبائی حکومت سے محروم ہوتی ہے تو مرکز میں حکومت کرنا انتہائی مشکل ہو جائے گا۔

شیئر: