Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’صبحِ بنارس‘ کی مقبولیت کا راز کیا ہے؟

بنارس کی صبح کو ’صبح درخشاں‘ بنانے میں دیومالائی داستانوں کا کردار ہے (فوٹو: اے ایف پی)
ے شامِ اودھ گیسوئے دلدار کا پرتو
اور صبحِ بنارس ہے رخِ یار کا پرتو
حیرت ہے کہ ’شامِ اَوَدھ‘ اور ’صبحِ بنارس‘ کو زلف یار و رخ دلدار سے تشبیہ دینے والا شاعر ’واحد پریمی‘ اپنے وطنِ مالوف (مدھیا پردیش) کی رعایت سے ’شبِ مَالوَہ‘ کا ذکر کیونکر بھول گیا۔
تین مختلف پہروں اور شہروں کے امتزاج سے شہرہ پانے والی ان تراکیب میں سے ہر ایک اپنی جگہ ایک مکمل داستان ہے۔ 
کہنے والے نے درست کہا ہے کہ کسی بھی قوم کی تاریخِ گم گشتہ کا سراغ اُس کی دستیاب لغت سے لگایا جاسکتا ہے۔ ’شامِ اَوَدھ، صبحِ بنارس اور شبِ مَالوَہ‘ کی سی تراکیب کو اس دعویٰ کی دلیل میں پیش کیا جاسکتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ سورج تو کُل عالم پر طلوع ہوتا ہے، پھر ’صبح بنارس‘ میں ایسا کیا ہے، کہ اسے ضرب المثل کا مقام حاصل ہوگیا۔ 
عرض ہے کہ خود اس مثال کا جہان فقط شمالی ہندوستان ہے۔ سچ یہ ہے کہ بنارس کی صبح کو ’صبح درخشاں‘ بنانے میں ہندو دیومالائی داستانوں کا کردار ہے۔ 
ہندو مت کے مطابق بنارس ’سپت پوری‘ یعنی اُن سات شہروں میں سے ایک ہے جنہیں مقدس مانا گیا ہے۔ دیگر چھ شہروں میں ’ایودھیا، متھرا، ہریدوار، کانچی، اونتی، اور دوارکا‘ شامل ہیں۔ 

بنارس اب وارانسی پکارا جاتا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

ہندو علم الاصنام کے مطابق ’بنارس‘ کی بنیاد برہما، شیو، اور وشنو میں سے ایک ’شیو‘ نے رکھی تھی۔ 
بنارس دریائے گنگا کے کنارے آباد ہے، اور ہندو مت میں گنگا کو بھی پاوِتر (مقدس) مانا گیا ہے۔ یوں اس شہر کی اہمیت دو چند ہوگئی ہے۔ 
اس پس منظر کے بعد آپ کو یہ سمجھنے میں دشواری نہیں ہوگی کہ منہ اندھیرے جب کہ ہندوستان بھر کے گڑھ، گاؤں اور گھروں میں نیند کا راج ہوتا، بنارس پوری طرح بیدار ہوتا ہے۔ مندروں میں گونجتی گھنٹیوں کے شور میں گروہ در گروہ گھاٹ پر اشنان ہوتا ہے۔ 
اہل بنارس کی اس سحرخیزی کے سبب ’صبح بنارس‘ نے ادب میں مستقل مقام پایا ہے۔ اب اگر ہندوستان کی آئندہ نسلوں کو نقشے میں ’بنارس’ نام کی جگہ ’وارانسی‘ نظر آئے تو بھی وہ ’صبح بنارس‘ کی رعایت سے اس شہر کی تاریخ پا جائیں گے۔
یہاں پہنچ کر پوچھ سکتے ہیں کہ ’بنارس‘ کا نام بدل کر ’وارانسی‘ کیوں کیا گیا اور یہ کہ خود ’وارانسی‘ کا کیا مطلب ہے۔ 
اس جواب سے پہلے یہ سمجھ لیں کہ ’بنارس‘ کا نام بدل کر ’وارانسی‘ کرنے کے پیچھے مذہبی سے زیادہ سیاسی عزائم ہیں۔ پہلے بھی لکھ آئے ہیں کہ انڈیا میں بھارتی جنتا پارٹی کے برسراقتدار آنے کے بعد ہندوتوا کے نظریے کو فروغ ملا ہے۔ اس حوالے سے جو اقدام اٹھائے گئے ان میں بہت شہروں کے قدیم ناموں کی طرف مراجعت بھی شامل ہے۔ ناموں کی تبدیلی کی اسی مہم کا نتیجہ ہے کہ ’بنارس‘ اب ’وارانسی‘ پکارا جاتا ہے۔ 
جہاں تک ’وارانسی‘ کی وجہ تسمیہ کی بات ہے اس کی نسبت یہاں بہنے والے دریاؤں ’وارانا‘ اور ’اسی‘ کی طرف ہے، یہ دریائے گنگا کے معاون دریا ہیں۔ انہی ’وارانا‘ اور ’اسی‘ کی نسبت  سے اس شہر کو ’وارانسی‘ نام ملا ہے۔ 

بنارسی ساڑھیاں، بنارسی سوئیاں اور بنارسی پان بھی مشہور ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اب سوال یہ ہے کہ اگر ’وارانسی‘ شہر کا مذہبی نام نہیں تو اس پھر اس کا مذہبی نام کیا ہے؟ عرض ہے کہ ہندوؤں کی مقدس کتابوں میں اس شہر کا نام ’کاشی‘ آیا ہے۔ پھر ایک خیال یہ بھی ہے کہ قدیم عہد میں ’کاشی‘ مملکت کا نام تھا جس کی راجدھانی ’وارانسی‘ شہر تھا۔ اس ’کاشی‘ کو آپ نذیر بنارسی کے شعر میں بھی دیکھ سکتے ہیں:
میں بنارس کا نِواسی کاشی نگری کا فقیر
ہند کا شاعر ہوں شیو کی راجدھانی کا سفیر
کاشی‘ کے معنی ’روشنی کا شہر‘ ہیں۔ روشنی اور چمک  کے معنی کے ساتھ ’کاشی‘ کے ’کاش‘ کو ’کاشمیر، کاشان، کاشغر اور قشقار‘ کے ناموں میں بھی دیکھا جاسکتا ہے، جو اس بات کا اشارہ ہے کہ ان شہروں کے ناموں کا تعلق یہاں موجود جھلملاتی جھیلوں اور پہاڑوں پر چمکتی برف سے ہے۔ 
بنارس کے تعلق سے ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے پختون بھائیوں میں ’بنارس خان‘ نام کا چلن عام ہے۔ انہیں یہ نام کیوں پسند ہے اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا، البتہ مختلف شہروں یا خطوں کی نسبت سے بچوں کے نام رکھنے کا رواج زمانہ قدیم سے موجود ہے۔
عربوں میں ’ہند‘ اور ’سند‘ ناموں کی نسبت سرزمین ہند و سندھ کی طرف رہی ہے۔ پھر شہر ’شیراز‘ اور ’کاشان‘ کی نسبت سے بچوں کے نام بھی ہیں۔ 

بنارس دریائے گنگا کے کنارے آباد ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

بنارس کے تعلق ’صبح بنارس‘ کے علاوہ جن چیزوں نے شہرت پائی ان میں ’بنارسی ساڑھیاں، بنارسی سوئیاں اور بنارسی پان‘ مشہور ہیں۔ بنارسی پان کی نسبت اسی کی دہائی میں ایک گانا بہت مقبول تھا، جس کے بول ہیں
کھایی کے پان بنارس والا
کُھل جائے بند عقل کا تالا
جس طرح بھرپور رعنائی کے ساتھ چاند اپنے دامن میں داغ چھپائے بیٹھا ہے، ایسے ہی بنارس کی خوبیوں کے پہلو میں ایک خامی بھی آسودہ ہے۔ اور وہ ہے ’بنارسی ٹھگ‘ ہیں۔ ان ٹھگوں کی چیرا دستی نے انگریزوں کو بھی زچ کردیا تھا۔ اور لفظ ’ٹھگ‘ نے اس قدر شہرت پائی کہ انگریزی زبان جگہ بنائی۔ اب ’ٹھگ‘ کی رعایت سے ترکش پردیپ کا شعر ملاحظہ کریں:
کیا کبھی تم نے کسی ٹھگ سے محبت کی ہے
ایک ترکش ہے جو دلی میں ہوا کرتا ہے
چوں کہ ورق تمام اور مدعا باقی والا معاملہ ہوا چاہتا ہے، سو بنارس کا ذکر تمام کرتے اور ’شام اودھ‘ اور ’شب مالوہ‘ کا قصہ کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔

شیئر: