Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کراچی: آتشزدگی کا شکار اور غیرقانونی عمارتوں کے متاثرین کا مستقبل کیا ہے؟

سمیعہ برج ویو عمارت کے 170 فلیٹس کے رہائشی بےگھر ہو گئے ہیں۔ فوٹو: اردونیوز
پاکستان کے شہر کراچی میں انتظامیہ کی مبینہ غفلت، لاپرواہی اور عدالتی فیصلوں سے متاثر ہونے والے شہری در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
نسلہ ٹاور، ٹیجوری ہائیٹس اور سمیعہ برج ویو کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ زندگی بھر کی جمع پونجی ایک لمحہ میں ختم ہوجائے تو زندگی ختم سی ہو جاتی ہے۔ ہنستے بستے گھر ایسے اجڑے ہیں کہ اب انہیں دوسروں کے گھروں پر وقت گزارنا پڑ رہا ہے۔ 
کراچی کے ضلع شرقی میں انتظامیہ کی مبینہ ملی بھگت سے بلڈرز کی جانب سے بے تحاشہ اونچی عمارتیں تعمیر کی گئی ہیں اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ ان عمارتوں کی تعمیر میں قوانین کی خلاف وزری ایک معمولی سی بات ہے۔
یکم جون کو کشمیر روڈ پر واقع سمیعہ برج ویو عمارت میں آتشزدگی کا واقعہ پیش آیا تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے آگ نے نا صرف سپر سٹور کی تین منزلوں کو نقصان پہنچایا بلکہ پلازہ میں موجود دیگر 170 فلیٹس کے مکینوں کو بھی در بدر کر دیا۔ 
بدھ کی صبح جب اس عمارت کے رہائشی شبیر آلانہ کو اچانک سپر سٹور میں آگ لگنے کی اطلاع ملی تو وہ جان بچانے کی خاطر اپنے اہلخانہ کے ہمراہ گھر سے باہر نکل گئے۔ تب سے یہ اپنے گھر واپس نہیں جا سکے ہیں اور اپنے ایک عزیز کے گھر میں رہ رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ یہ فلیٹ ان کی زندگی کی کل جمع پونجی ہے۔ 
’تنخواہ دار فرد کے لیے اس مہنگائی میں اپنا گھر بنانا بہت مشکل ہے۔ اپنی ضروریات  کو کم کر کے کئی جگہ سے دل مار کر پیسے جمع کیے تھے اور یہ دو کمرے کا فلیٹ خریدا تھا کہ اپنے اہلخانہ کے ہمراہ سکون سے اپنے گھر میں رہ سکیں گے۔‘
نم آنکھوں کے ساتھ شبیر کا کہنا تھا ’چار روز میں زندگی ختم سی ہو گئی ہے۔‘

سپریم کورٹ نے نسلہ ٹاور کو گرانے کا حکم دیا تھا۔ فوٹو: سوشل میڈیا

’گھر میں چھوٹی چھوٹی چیزیں پیار سے جمع کی تھیں۔ ایک فلیٹ کو گھر بنانے میں تین سال لگے تھے۔ بچوں نے اپنے حساب سے ہر چیز ترتیب دے رکھی تھی۔ اب بچے پوچھتے ہیں کہ بابا ہم واپس اپنے گھر جاسکیں گے کہ نہیں؟
لیکن اس سوال کا جواب شبیر کے پاس بھی نہیں ہے۔

سمیعہ برج ویو رہائش کے لیے خطرناک قرار

سندھ بلڈنگ کنڑول اتھارٹی اور ضلع انتظامیہ نے آتشزدگی کے بعد کارروائی کرتے ہوئے عمارت کو خالی رکھنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔ عمارت کے نچلے حصوں میں دراڑیں پڑنے کی وجہ سے اسے رہائش کے لیے خطرناک قرار دیا گیا ہے اور رہائشیوں سمیت کسی بھی فرد کو عمارت میں داخل ہونے سے روک دیا گیا ہے۔ 
یوں تو کراچی کے ساتوں اضلاع میں انتظامیہ کی مبینہ ملی بھگت سے غیر قانونی اور خلاف ضابطہ تعمیرات کا سلسلہ جاری ہے۔ کراچی ترقیاتی ادارہ، سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور ضلعی انتظامیہ سمیت دیگر اداروں کی موجودگی میں اب بھی تعمیرات کا سلسلہ جاری ہے۔  
کراچی ضلع شرقی کے جس علاقے میں نسلہ ٹاور، سمیعہ برج ویو اور ٹیسوری ہائیٹس واقع ہیں ان عمارتوں کے درمیان کچھ کلومیٹرز کا فاصلہ ہی رکھا گیا ہے۔ اور شہر بھر میں غیر قانونی تعمیرات کے خلاف کارروائی کرنے والے اداروں کے دفاتر بھی یہیں موجود ہیں۔ 
مذکورہ علاقے کا سروے کرنے پر معلوم ہوا کہ اس وقت بھی اس علاقے میں 50 سے زائد ایسی عمارتیں ہیں جہاں قوانین کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ ایک درجن سے زائد سپر سٹور علاقے میں قائم ہیں جہاں آتشزدگی سے متاثر ہونے والے پلازے کی طرز پر بیسمنٹ اور گراؤنڈ فلور سمیت میزنائن فلور کو گودام یا ریسٹورنٹ کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ ان کاروباری مقامات پر کام کرنے والے افراد کے پاس سرکاری دستاویزات بھی موجود ہیں۔

سمیعہ برج ویو کی عمارت میں یکم جون کو آگ لگی تھی۔ فوٹو: ٹوئٹر مرتضیٰ وہاب

یاد رہے کہ کراچی میں تعمیرات کے لیے سات سے زائد اداروں کی اجازت لینا لازمی ہے۔ اس کے علاوہ رہائشی عمارت میں موجود کمرشل مقامات کے قوانین بھی موجود ہیں۔ ان میں آگ بجھانے کے آلات، ہنگامی اخراج کے راستے اور عملے کی تربیت سمیت دیگر اہم قوانین موجود تو ہیں لیکن ان پر عمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ 
متاثرین کے مطابقے حادثے کے وقت انتظامیہ کی جانب سے کئی وعدے کیے جاتے ہیں لیکن بعد میں کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ اس کی ایک تازہ مثال نسلہ ٹاور اور ٹیسوری ہائیٹس کی ہے۔ 

نسلہ ٹاور کے متاثرین ادائیگیوں کے منتظر

بلڈرز اور انتظامیہ کی خطا کی سزا وہاں کے رہنے والوں کو مل رہی ہے۔ کل تک جو اپنے گھر کے مالک تھے آج یا تو کرائے پر رہ رہے ہیں یا پھر کسی عزیز و اقارب کے گھر میں رہنے پر مجبور ہیں۔ 
ایسی ہی ایک عمارت شاہراہ قائدین اور شاہراہ فیصل کو ملانے والی سڑک پر بھی موجود تھی جسے نسلہ ٹاور کہا جاتا تھا۔ بلڈر، ضلع انتظامیہ اور سوسائٹی کی ملی بھگت سے عمارت کی تعمیر میں سروس روڈ کو پلاٹ میں شامل کر کے تعمیرات کی گئیں اور بعد میں عدالت نے عمارت کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے گرانے کا حکم دیا۔
نسلہ ٹاور کے رہائشی ابراہیم نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ یہاں سے گھر خالی کرنے کے بعد اب وہ اپنے ایک عزیز کے گھر میں رہتے ہیں اور کرائے کا مکان افورڈ نہیں کر سکتے۔
انہوں نے بتایا کہ عدالت کی جانب سے بلڈرز کو کہا گیا تھا کہ متاثرین کو معاوضے کی ادائیگی کی جائے جو ابھی تک نہیں ہو سکی۔

ٹیسوری ہائیٹس کے رہائشیوں کو معاوضہ نہ مل سکا

حسن سکوائر کے قریب واقع ٹیسوری ہائیٹس میں فلیٹ بک کروانے والے ایک شہری نے شناخت نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا اس عمارت میں انہوں نے جون 2019 میں دو کمرے کا ایک فلیٹ بک کروایا تھا۔ اس فلیٹ کی بکنگ پر انہیں ایک کروڑ 72 لاکھ ادا کرنا پڑے تھے۔

مختلف عمارتوں کے متاثرین عزیز و اقارب کے ساتھ رہنے پر مجبور ہیں۔ فوٹو: اردو نیوز

ایڈوانس رقم دینے کے بعد انہوں نے قسطیں بھی جمع کروائیں۔ کچھ عرصے بعد عدالت کی جانب سے اس منصوبے کو غیر قانونی قرار دیا گیا اور تعمیر شدہ عمارت کو مسمار کر دیا گیا۔ عدالت نے متاثرین کو رقم واپسی کا حکم بھی دیا لیکن ابھی تک کوئی رقم ادا نہیں کی گئی۔ 
ان کا کہنا تھا ’روز امید لگاتے ہیں کہ شاید کوئی ایسا اقدام ہو جائے جس سے یا تو ہمیں گھر مل جائے یا پھر ہمارا معاوضہ مل جائے تاکہ ہر مہینے کے کرائے سے بچ سکیں۔‘ 
سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) کے ضلع شرقی کے ڈپٹی ڈائریکٹر نے سمیا برج ویو میں واقع سپر سٹور کے مالک کو آتشزدگی کا ذمہ دار قرار دے دیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ سپر سٹور کے مالک نے خلاف ضابطہ بیسمنٹ کو گودام بنایا ہوا تھا جبکہ اس جگہ پر اتھارٹی نے پارکنگ کی منظوری دی تھی۔ سپر سٹور کے مالک کے خلاف مقدمہ درج ہو چکا ہے۔
ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیویلپرز کے چئیرمین محسن شیخانی کا کہنا ہے کہ جب شہر میں کوئی حادثہ پیش آتا ہے تو انتظامیہ اور ادارے جاگ جاتے ہیں ورنہ کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔
’بلڈر نے چھ سال قبل یہ عمارت فروخت کی تھی۔ اب یہ اداروں کی ذمہ داری تھی کہ وہ دیکھیں کہ گرؤانڈ فلور خریدنے والے نے تہ خانے میں پارکنگ رکھی ہے یا پھر گودام بنایا ہے۔‘
واضح رہے کہ سپر سٹور میں آتشزدگی کے اس واقعے میں ایک نوجوان کی دم گھنٹے سے ہلاکت ہوئی  تھی جبکہ ریسکیو عملے سمیت متعدد افراد اس سے متاثر ہوئے تھے۔
دوسری جانب بلڈنگ یونین نے انتظامیہ سے بلڈنگ سیل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ یونین ذمہ دار کے مطابق جلد ہی عمارت کو سیل کردیا جائے گا تاکہ کوئی بھی رہائشی عمارت میں داخل نہ ہوسکے۔

شیئر: