Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’احتساب کا احتساب کریں گے‘ نیب افسران کے اثاثوں کی تفصیلات طلب

نیب کی ریکوری سے 17 ارب روپے حکومتی خزانے میں جمع ہوئے۔ فوٹو اے ایف پی
پاکستان کے پارلیمان کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے نیب افسران، ملازمین اور ان کے قریبی رشتہ داروں کے اثاثوں کی تفصیلات ایک ماہ میں پیش کرنے کا کہا ہے۔ دوسری جانب قومی احتساب بیورو کا کہنا ہے کہ نیب افسران کو ملزم قرار دے کر تحقیقات کا حکم دیا جائے تو تفصیلات فراہم کر سکتے ہیں۔ 
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کے منگل کو ہونے والے اجلاس کے دوران تحریک انصاف کے رہنما اور کمیٹی کے رکن شبلی فراز نے نور عالم خان کے اجلاس کی صدارت کرنے پر اعتراض اٹھایا ہے۔
پی اے سی کے نئے چیئرمین نورعالم خان کی سربراہی میں کمیٹی کا پہلا اجلاس ساڑھے گیارہ بجے شیڈول تھا لیکن کورم پورا نہ ہونے کے صورت میں 23 منٹ کی تاخیر سے شروع ہوا۔ 
پی اے سی نے سابق چیئرمین نیب جاوید اقبال کو ذاتی حیثیت میں طلب کر رکھا تھا لیکن عہدے سے سبکدوشی کے بعد  قائم مقام چیئرمین ظاہر شاہ نیب کے تمام علاقائی ڈائریکٹر جنرلز کے ساتھ اجلاس میں شریک ہوئے۔ 
پی اے سی نے آڈیٹر جنرل سے پوچھا کہ نیب کے کتنے آڈٹ اعتراضات ہیں۔
آڈیٹر جنرل نے کمیٹی کو بتایا کہ سال 2021-22 میں نیب کا ڈبل آڈٹ کیا گیا ہے۔ 
اس موقع پر سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ ’نیب نے 810 ارب روپے ریکور کیے مگر وزارت خزانہ کے مطابق 15 ارب روپے جمع ہوئے ہیں۔ وہ پیسے کہاں گئے جو نیب نے جمع کیے ہیں۔‘
آڈیٹر جنرل نے بتایا کہ نیب کی ریکوری سے 17 ارب روپے حکومتی خزانے میں جمع ہوئے ہیں۔
نور عالم خان نے کہا ’جو رقم نیب کے دائرہ اختیار میں آتی ہے اس کا آڈٹ ہو گا۔ قانون کہتا ہے جو پیسہ ان کو ملے اس کا آڈٹ ہو۔ ہم نے قانون پر چلنا ہے طبعیت پر چلنے والا دور ختم ہو گیا ہے۔‘

شبلی فراز نے نور عالم خان کے اجلاس کی صدارت کرنے پر اعتراض اٹھایا۔ فوٹو: ٹوئٹر نور عالم

قائم مقام چیئرمین نیب نے اپنی بریفنگ میں بتایا کہ نیب نے 20 اپریل کو کمیٹی میں تمام ریکوری کی تفصیل پیش کی تھی۔
’نیب کا ایک ہی اکاؤنٹ ہے جس میں پیسے جمع ہوتے ہیں۔ قانون کہتا ہے کہ ایک ماہ میں جس کے پیسے ہیں واپس کرنے ہیں۔ تمام پیسے 2008 تک کنسولیڈیٹڈ اکاؤنٹ میں جمع ہوتے تھے۔ سندھ نے اعتراض اٹھایا جس کے بعد جس کے پیسے ہیں اس کو دے دیے جاتے ہیں۔ ایک روپیہ اپنے پاس نہیں رکھتے۔ جن کیسز میں مقدمات چل رہے ہوتے ہیں وہ پیسے اکاؤنٹ میں پڑے رہتے ہیں۔‘ 
رکن کمیٹی سلیم مانڈوی والا کہا تھا ’نیب میں جتنے بھی پیسے آئیں ان کا آڈٹ ہونا چاہیے۔  نیب چیئرمین ظاہر شاہ نے کہا کہ ان ڈائریکٹ ریکوری میں ملزم کے نام پر پراپرٹی ہوتی ہے وہ سرنڈر کر دی جاتی ہے۔ وہ پراپرٹی متعلقہ حکومت کو سونپ دی جاتی ہے۔ اسلام آباد میں ایک شخص کی کنوکشن ہوئی اس کی پراپرٹی ضبط ہوئی وہ اسلام آباد کے حوالے کر دی۔‘ 
پی اے سی نے نیب کی جانب سے ریکور کردہ 800 ارب روپے کے آڈٹ کی ہدایت کر دی جس پر آڈیٹر جنرل نے کہا کہ ہم نیب کے اخراجات کا آڈٹ کر رہے ہیں۔ 
کمیٹی چیئر مین نے نیب سے کہا کہ تمام افسران کے اثاثوں کی تفصیلات مہیا کی جائیں۔
’جن لوگوں کو ایک جگہ تعیناتی میں توسیع دی گئی ہے بتایا جائے کہ کتنی توسیع دی گئی۔ تمام تفصیلات میڈیا میں دی جائیں گی۔ ہم احتساب کرنے والوں کا احتساب چاہتے ہیں- احتساب کا بھی احتساب ہوگا۔ ایک ماہ میں گاڑیوں، مراعات اور تنخواہ سے متعلق تفصیلات مہیا کی جائیں۔‘ 
قائم مقام چیئرمین نیب نے بتایا کہ ادارے کے تمام افسران اپنے اثاثوں کی تفصیلات جمع کرواتے ہیں۔ 
کمیٹی نے کہا کہ ’اسی پروفارمہ پر نیب افسران کے اثاثہ جات کی تفصیلات کمیٹی کو دی جائیں جو نیب ہمیں پر کرنے کے لیے دیتا ہے۔‘

پی اے سی نے نیب کے ریکور کردہ 800 ارب کے آڈٹ کی ہدایت کی۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

اس موقع پر نیب افسران نے باہمی مشاورت کی اور ڈی جی نیب نے بتایا کہ نیب کی جانب سے پرفامہ ملزم کو دیا جاتا ہے، آپ نیب افسران کو ملز م قرار دے دیں تو ہم پرفارمہ پر کر دیتے ہیں۔
’کمیٹی نیب افسران کے خلاف انکوائری کرنے کے احکامات دے دے۔ انکوائری کرنے پر ہی پرفارمہ پر کروایا جاتا ہے۔‘
نیب افسران کی جانب سے کمیٹی ہدایات پر رد عمل دیکھتے ہوئے نور عالم خان نے کہا کہ ’احتساب کے لیے میں اور میرے کولیگ تیار ہیں لیکن آپ کا پروفارمہ مانگنا ہتک لگ رہا ہے اور آپ کو چبن ہوئی ہے۔ ہمیں بھی چبن ہوتی ہے۔‘ 
 چئیرمین پی اے سی نور عالم خان نے اجلاس کے دوران اپنی انکوائری سے متعلق پوچھا تو ڈی جی نیب پشاور نے بتایا کہ انہیں ابھی تک کلئیر کیا گیا۔ اس پر نور عالم نے کہا کہ اگر ان پر کرپشن کیس ہے تو وہ اپنی کرسی سے اٹھ سکتے ہیں۔ 
شبلی فراز نے کہا کہ چیئرمین پی اے سی کا قد بڑھے گا اگر وہ نیب کی بریفنگ کے دوران اجلاس کی صدارت نہ کریں۔
’اچھا نہیں لگتا کہ چیئرمین جن کی انکوائری ہو رہی ہے وہی ان سے وضاحت مانگ رہے ہیں۔‘
نور عالم نے جواب دیا کہ ’یہ کیس آپ کو بے عزت کرنے اور سیاسی انتقام کے لیے رکھتے ہیں۔ جو بندہ کرپشن کرتا ہے اس کو کوئی نہیں پوچھتا۔‘ 

پی اے سی نے سابق چیئرمین نیب جاوید اقبال کو طلب کر رکھا تھا۔ فوٹو: اے پی پی

کمیٹی چیئرمین نے اس موقع پر اجلاس ملتوی کرتے ہوئے  نیب افسران کو آئندہ اجلاس میں اپنے اثاثوں کی تفصیلات فراہم کرنے کا کہا اور تب تک ان کے خلاف جاری انکوائری پر بھی حتمی فیصلہ دینے کا کہا۔
بعد ازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شبلی فراز نے مطالبہ کیا کہ نور عالم خان کو نیب کی موجودگی میں اجلاس کی صدارت نہیں کرنی چاہیے۔ تاہم نور عالم خان کا کہنا تھا کہ ان کے خلاف مقدمہ نہیں بلکہ انکوائری ہے اس لیے وہ اجلاس کی صدارت کریں گے۔ 

شیئر: