Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وزارت توانائی میں 401 ارب روپے کی مالی بے ضابطگیوں کا انکشاف

مالی سال 2020-21 میں وزارت توانائی نے 9 کمپنیوں سے آئل اور گیس کی 40 فیلڈز کی رائلٹی وصول نہیں کی۔ (فوٹو: اے ایف پی)
وزارت توانائی میں مالی سال 2020-21 میں 401 ارب 40 کروڑ 41 لاکھ روپے کی مالی بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے۔ اس میں سے 68 ارب 37 کروڑ روپے کے واجبات کی رقم بھی شامل ہے۔
وزارت نے گزشتہ سال سے 30 فیصد سے زائد وصولیاں کرنے کے باوجود اپنے طے شدہ ہدف سے 16 فیصد کم وصولیاں کی ہیں۔
اردو نیوز کو دستیاب آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی آڈٹ رپورٹ برائے مالی سال 2020-21 میں کہا کیا گیا ہے کہ وزارت توانائی کے مختلف اداروں کی گیس انفرانسٹرکچر ڈیویلپمنٹ سیس اور گیس ڈیویلپمنٹ سرچارج کی مد میں 389 ارب، 96 کروڑ روپے، پیٹرولیم لیوی کی مد میں چار ارب روپے، کروڈ آئل اور گیس میں رائلٹی کی مد میں 10 ارب 87 کروڑ روپے کی بے ضابطگیاں کی گئیں۔
اسی طرح مالی سال 2018-19 کے مقابلے میں وزارت نے 30 فیصد وصولی کی اور 42 ارب 85 کروڑ کے مقابلے میں 55 ارب 56 کروڑ روپے کی وصولیاں کی گئیں تاہم مالی سال 2020-21 کے لیے طے شدہ ہدف 66 ارب 22 کروڑ حاصل کرنے میں ناکامی ہوئی جس وجہ سے 10 ارب 65 کروڑ روپے کا خسارہ برداشت کرنا پڑا۔
آڈٹ اعتراض کے دوران آڈٹ حکام کا کہنا ہے کہ گیس انفراسٹرکچر ڈیویلپمنٹ سیس ایکٹ 2015 کے تحت پاک ایران گیس پائپ لائن، تاپی منصوبے ایل این جی اور دیگر منصوبوں کے لیے خرچ کیا جانا تھا تاہم سپریم کورٹ کے 13 اگست 2020 کے فیصلے میں حکومت کو پہلے سے وصول کیا گیا سرچارج خرچ کرنے اور ان منصوبوں پر چھ ماہ میں کام شروع کرنے کا حکم دیا تھا اور اس وقت تک نیا سرچاج وصول کرنے سے روک دیا تھا جب تک سپریم کورٹ کے حکم پر عمل درآمد نہیں ہو جاتا۔
آڈٹ کے دوران انکشاف ہوا کہ محکمہ گیس کے ڈی جی اسلام آباد نے 30 جون 2021 تک 325 ارب 12 کروڑ 74 لاکھ روپے جی آئی ڈی سی کی مد میں وصول کر رکھے ہیں جبکہ ان میں سے صرف دو ارب 81 کروڑ روپے گیس انفراسٹرکچر پر خرچ کیے گئے ہیں۔

آڈٹ کا کہنا ہے کہ مالی بے ضابطگی ملک میں توانائی کے بحران کا پیش خیمہ بنی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

آڈٹ حکام کا کہنا ہے کہ ناقص منصوبہ بندی کے باعث 322 ارب روپے کے فنڈز استعمال نہ کرنے سے ملک میں گیس کے انفراسٹرکچر کو بہتر نہیں بنایا جا سکا جس سے نہ صرف مالی بے ضابطگی ہوئی بلکہ ملک میں توانائی کے بحران کا پیش خیمہ بھی بنی ہے۔
دوسری جانب وزارت توانائی کا موقف ہے کہ ان منصوبوں کے لیے ملک کے اندر وزارت دفاع اور وزارت خارجہ سے رابطے کرکے ضروری سفارتی رابطوں کے بارے میں پوچھا گیا ہے جبکہ زمین کے حصول کے لیے بھی کوششیں جاری ہیں۔
آڈٹ حکام نے وزارت توانائی کے حکام کے جواب کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی ہے۔
ایک اور آڈٹ اعتراض میں آڈیٹر جنرل نے کہا ہے کہ قانون کے مطابق ہر کمپنی کو اپنے فروخت کیے گئے گیس کے ساتھ صارف کمپنیوں سے گیس ڈیویلپمنٹ سرچارج وصول کرکے قومی خزانے میں جمع کرانا ہوتا ہے۔

وزارت توانائی نے گزشتہ سال سے 30 فیصد سے زائد وصولیاں کرنے کے باوجود اپنے طے شدہ ہدف سے 16 فیصد کم کی ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

آڈٹ کے دوران معلوم ہوا کہ ان کمپنیوں نے گیس ڈیویلپمنٹ سرچارج وصول تو کر لیا لیکن قومی خزانے میں جمع نہیں کرایا جس سے 43 ارب روپے کا نقصان پہنچا۔
ایک اور کیس میں سرچارج کی اصل رقم دو ارب 12 کروڑ روپے ہے لیکن عدم وصولی کے باعث اس پر سود کی رقم 11 ارب سے تجاوز کر چکی ہے لیکن وصولی ممکن نہیں بنائی جا سکی۔
آڈٹ حکام کا کہنا ہے کہ قانون کے مطابق اگر کوئی کمپنی پاکستان کی زمین سے تیل نکالتی ہے تو وہ متعلقہ صوبے کو رائلٹی دینے کی پابند ہے۔ اگر 45 روز میں رائلٹی ادا نہ کی جائے تو اس پر دو فیصد جرمانہ ماہانہ بنیادوں پر عائد ہوتا ہے۔
آڈٹ کے مطابق مالی سال 2020-21 میں وزارت توانائی نے 9 کمپنیوں سے آئل اور گیس کی 40 فیلڈز کی رائلٹی وصول نہیں کی جس کی رقم 10 ارب 72 کروڑ روپے بنتی ہے۔

شیئر: