افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد معاشی حالات سنگین ہوتے جارہے ہیں جس کے باعث ملک انسانی بحران کا شکار ہے۔
افغانستان میں خوراک کی کمی، بھوک اور بے روزگاری میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
مزید پڑھیں
-
’اثاثے منجمد کرنے سے افغان خواتین کی مشکلات میں اضافہ‘Node ID: 664366
حال ہی میں سوشل میڈیا پر موسیٰ محمدی نامی ایک نیوز اینکر کی تصویر وائرل ہے جو سڑک کے کنارے بیٹھا سموسے بیچ رہا ہے۔
موسیٰ محمدی نامی نیوز اینکر افغانستان کے نیوز چینل آریانا نیوز میں خبریں پڑھتے تھے۔
واضح رہے کہ جب طالبان نے افغانستان پر اپنی حکومت قائم کی تو متعدد ٹی وی چینلز کو بند کردیا جس کے بعد صحافیوں کے روزگار ختم کر دیے گئے۔
ان حالات میں موسیٰ کو بھی نوکری سے ہاتھ دھونا پڑ گیا اور وہ اپنے روزگار کے لیے سڑکوں پر سموسے بیچنے لگے۔
سوشل میڈیا ویب سائٹ ٹوئٹر پر ان کی تصویر وائرل ہونے کے بعد صارفین ملے جلے تبصرے کر رہے ہیں۔
صحافی کبیر حکمل کہتے ہیں کہ ’طالبان حکومت کے تحت صحافیوں کی زندگی۔ موسیٰ محمدی کئی برس تک مختلف ٹی وی چینلز میں نیوز اینکر اور رپورٹر کے طور پر کام کرتے رہے ہیں۔ اب ان کے پاس اپنی فیملی کو کھلانے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ وہ سٹریٹ فوڈ بیچ رہے ہیں۔ حکومت گرنے کے بعد افغانی شدید غربت کا شکار ہیں۔‘
Journalists life in #Afghanistan under the #Taliban. Musa Mohammadi worked for years as anchor & reporter in different TV channels, now has no income to fed his family. & sells street food to earn some money. #Afghans suffer unprecedented poverty after the fall of republic. pic.twitter.com/nCTTIbfZN3
— Kabir Haqmal (@Haqmal) June 15, 2022
موسیٰ محمدی کی سموسے بیچنے کی خبر وائرل ہونے کے بعد افغانستان کے نیشنل ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ڈائریکٹر جنرل احمد اللہ واثق نے موسیٰ محمدی کو نوکری دینے کا اعلان کیا ہے۔
په ټولنیزو رسنیو کې د یوه خصوصي ټلویزیون د ویاند موسی محمدي د بې روزګارۍ انځور ښکته پورته کېږي
چې څومره به رښتیا وي، که واقعيت وي د ملي راډیو ټلوېزیون د رئیس په ټوګه نوموړي ته ډاډ ورکوم چې دملي راډیو ټلويزیون په چوکاټ کې به یې مقرر کړو
موږ ټولو افغان مسلکي کادرونو ته اړتیا لرو pic.twitter.com/w3F2HrVQ1R— Ahmadullah wasiq (@WasiqAhmadullah) June 15, 2022
واضح رہے افغانستان کی معاشی صورتحال وقت کے ساتھ ساتھ گھمبیر ہوتی جا رہی ہے اور وہاں غذائی قلت سب سے نمایاں مسئلہ ہے۔
یکم فروری 2022 کو برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ایک تصویر اپ لوڈ کی تھی جس میں افغان خواتین دارالحکومت کابل میں بیکری سے مفت روٹی لینے کے لیے انتظار میں کھڑی تھیں۔
A girl sits in front of a bakery in the crowd with Afghan women waiting to receive bread in Kabul, Afghanistan Ali Khara pic.twitter.com/3oZbapjtHU
— Reuters Pictures (@reuterspictures) February 1, 2022