Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پیٹرولیم مصنوعات پر لیوی عائد، انکم ٹیکس ریلیف واپس

وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے بتایا کہ 50 روپے فی لیٹر لیوی یکمشت عائد نہیں کی جائے گی (فوٹو: گیٹی امیجز)
پاکستان کی قومی اسمبلی نے فنانس بل 23- 2022 کی کثرت رائے سے منظور دے دی ہے۔  جس کے مطابق پیٹرولیم مصنوعات پر 50 روپے فی لیٹر لیوی عائد کر دی گئی تاہم وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ ’اس وقت لیوی صفر ہے، 50 روپے لیوی یک مشت عائد نہیں کی جائے گی۔‘
بدھ کو قومی اسمبلی میں فنانس بل کی شق وار منظوری کا مرحلہ شروع ہوا تو وزیر مملکت برائے خزانہ عائشہ غوث پاشا نے بتایا کہ ’ہم ایسے ٹیکس لائے ہیں جو صاحب ثروت لوگوں پر لگیں گے۔ ایسا اس لیے کیا ہے تاکہ عام آدمی پر بوجھ نہ پڑے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہم نے جو تبدیلیاں کی ہیں وہ پچھلی حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ طے کی تھیں۔ ہم صرف ذمہ دار ملک کی حیثیت سے اپنے وعدوں پر پر عمل در آمد کر رہے ہیں۔‘
عائشہ غوث پاشا نے پٹرولیم مصنوعات پر 50 روپے فی لیٹر پٹرولیم لیوی کی ترمیم پیش کی جسے ایوان نے کثرت رائے سے منظور کر لیا۔
اس موقع پر وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’اس وقت لیوی صفر ہے۔ 50 روپے فی لیٹر لیوی یکمشت عائد نہیں کی جائے گی۔ پٹرولیم مصنوعات پر لیوی لگانے کا اختیار قومی اسمبلی نے حکومت کو دے رکھا ہے۔‘
قومی اسمبلی نے تاجروں سے بجلی کے بلوں کے ذریعے سیلز ٹیکس وصول کرنے سے متعلق شق کی بھی منظوری دی۔

تنخواہ دار طبقے کے لیے دیا گیا ٹیکس ریلیف واپس

قومی اسمبلی نے فنانس بل میں ترمیم کرتے ہوئے بجٹ پیش کرتے وقت تنخواہ طبقے کو دیا گیا انکم ٹیکس ریلیف ختم کرتے ہوئے ٹیکس سلیب میں تبدیلیوں کی بھی منظوری دے دی ہے، جس کے بعد تنخواہ دار طبقے کو اپنی آمدن پر درج ذیل شرح سے ٹیکس ادا کرنا ہو گا۔
پہلے سلیب کے تحت 6 لاکھ روپے سالانہ کمانے والوں پر کوئی ٹیکس نہیں لاگو نہیں ہوتا۔ اس لیے اگر کسی کی آمدن 6 لاکھ سے کم ہے تو اسے انکم ٹیکس کی مد میں کچھ بھی رقم ادا نہیں کرنا پڑتی۔ تاہم گوشوارے پھر بھی لازمی جمع کرانا ہوں گے۔
دوسرے سلیب میں چھ لاکھ روپے سے 12 لاکھ روپے کمانے والے آتے ہیں۔ اس لحاظ سے ان پر 2 اعشاریہ پانچ فیصد ٹیکس لاگو ہو گا۔ یعنی اگر کل آمدن 12 لاکھ ہوگی تو سالانہ 30 ہزار روپے ٹیکس ادا کرنا پڑے گا۔  

پانچویں سلیب میں 36 لاکھ سے 60 لاکھ تک آمدن کے حامل افراد شامل ہیں۔ (فائل فوٹو: پکسابے)

تیسرے سلیب میں 12 لاکھ سے 24 لاکھ روپے والے افراد آتے ہیں۔ اس سلیب کے تحت 12 لاکھ روپے تک فکسڈ ٹیکس 15 ہزار روپے ہوگا کہ جبکہ 12 لاکھ سے 24 لاکھ کی درمیانی رقم پر 12.5 فیصد کے حساب سے ٹیکس لاگو ہو گا یعنی اگر آمدن 24 لاکھ ہو گی تو ایک لاکھ 50 ہزار روہے جمع 15 ہزار یعنی ایک لاکھ 65 ہزار روپے انکم ٹیکس بنے گا۔ 
چوتھے سلیب کے تحت سالانہ آمدن 24 لاکھ سے 36 لاکھ رکھی گئی ہے۔ اس پر ٹیکس 24 لاکھ روپے تک فکسڈ ایک لاکھ 65 ہزار روپے ہے جبکہ 24 لاکھ سے اوپر اور 36 لاکھ سے کم رقم پر 20 فیصد ٹیکس ادا کیا جانا ہے۔
مثال کے طور پر اگر کسی کی آمدن 35 لاکھ روپے ہے تو اسے ایک لاکھ 65 ہزار دو لاکھ 20 ہزار روپے یعنی کل تین لاکھ 85 ہزار روپے ٹیکس دینا ہو گا۔  
پانچویں سلیب میں 36 لاکھ سے 60 لاکھ تک آمدن کے حامل افراد شامل ہیں جن پر 36 لاکھ تک کی آمدن پر چار لاکھ پانچ ہزار فکسڈ ٹیکس عائد ہو گا جبکہ 36 لاکھ سے 60 لاکھ کے درمیان ہونے والی آمدن پر 25 فیصد کے حساب سے ٹیکس دینا ہو گا۔  
اگر کسی فرد کی کل آمدن 55 لاکھ ہو گی تو اسے چار لاکھ پانچ ہزار کے علاوہ چار لاکھ 75 ہزار یعنی کل 8 لاکھ 80 ہزار روپے ٹیکس دینا ہو گا۔  
60 لاکھ سے ایک کروڑ 20 لاکھ کمانے والوں پر فکسڈ ٹیکس 10 لاکھ پانچ ہزار روپے ہے تاہم 60 لاکھ سے زائد کمائی جانے والی رقم پر 32 اعشاریہ پانچ فیصد ٹیکس لاگو ہوگا۔ اس حساب سے اگر کسی کی آمدن ایک کروڑ ہوگی تو اسے 10 لاکھ پانچ ہزار کے علاوہ بھی 13 لاکھ روپے ٹیکس دینا ہو گا۔  

بینکنگ سیکٹر پر بھی مالی سال 2023 میں 10 فیصد سپر ٹیکس عائد کیا جائے گا۔ (فائل فوٹو: پکسابے)

ساتواں سلیب تنخواہ دار طبقے کا سب سے آخری سلیب جس میں ایک کروڑ 20 لاکھ روپے سے زائد کمانے والے افراد شامل ہیں۔ اس کے تحت ایک کروڑ 20 لاکھ روپے تک کی آمدن پر 29 لاکھ 55 ہزار روپے جبکہ اس سے اوپر کی رقم پر 35 فیصد ٹیکس ادا کرنا ہو گا۔  
یعنی ایسے افراد کی آمدن اگر دو کروڑ ہو تو 29 لاکھ 55 ہزار کے علاوہ 28 لاکھ روپے ٹیکس ادا کرنا ہو گا۔

سپر ٹیکس 

قومی اسمبلی نے 15 کروڑ سے 30 کروڑ روپے سالانہ آمدن پر ایک سے چار فیصد سپر ٹیکس عائد کرنے کی بھی منظوری دی۔ جس کے تحت 30 کروڑ روپے سے زائد سالانہ آمدن والے 13 شعبوں پر 10 فیصد سپر ٹیکس عائد ہو گا۔ ایئرلائنز، آٹوموبائل، مشروبات، سیمنٹ، کیمیکل، سگریٹ، فرٹیلائزر، سٹیل، ایل
این جی ٹرمینل، آئل مارکیٹنگ، آئل ریفائننگ، فارماسوٹیکل، شوگر اور ٹیکسٹائل پر 10 فیصد سپر ٹیکس عائد ہو گا۔ بینکنگ سیکٹر پر بھی مالی سال 2023 میں 10 فیصد سپر ٹیکس عائد کیا جائے گا۔

درآمدی موبائل فونز مزید مہنگے

فنانس بل کی منظوری کے ساتھ ہی موبائل فونز کی درآمد پر 100 روپے سے 16 ہزار روپے تک لیوی عائد ہو گئی ہے۔ 30 ڈالر کے موبائل فون پر 100 روپے لیوی جبکہ 30 ڈالر سے 100 ڈالر مالیت کے موبائل فونز پر 200 روپے لیوی، 200 ڈالر کے درآمدی موبائل فون پر 600 روپے لیوی، 350 ڈالر مالیت کے موبائل فونز پر 1800 روپے لیوی، 500 ڈالر کے موبائل فون پر چار ہزار لیوی عائد ہو گی۔
بجٹ میں 700 ڈالر مالیت کے موبائل فون پر آٹھ ہزار روپے لیوی جبکہ 701 ڈالر مالیت کے موبائل فون پر 16 ہزار لیوی عائد کی گئی ہے۔
بجٹ میں سنیما، فلم پروڈکشن اور پوسٹ پروڈکشن کے درآمدی آلات پر ڈیوٹی ختم کر دی گئی  ہے۔ پروجیکٹرز، سکرین، تھری ڈی گلاسز، ڈیجیٹل لاؤڈ سپیکرز، ایمپلیفائر، میوزک ڈسٹریبیوشن سسٹم اور دیگر اشیا پر بھی ڈیوٹی ختم کر دی گئی ہے۔

ریٹیلرز پر پینلٹی

فنانس بل میں ترمیم کے ذریعے کاروبار ایف بی آر کمپیوٹرائزڈ سسٹم سے منسلک نہ کرنے والے ریٹیلرز کو پینلٹی لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ پہلی بار ڈیفالٹ کی صورت میں 5 لاکھ روپے جرمانہ ہو گا۔ 15 روز بعد دوسری بار ڈیفالٹ پر 10 لاکھ روپے پینلٹی لگے گی۔ دوسرے ڈیفالٹ کے 15 دن بعد خلاف ورزی پر
20 لاکھ روپے جرمانہ ادا کرنا ہو گا۔ تیسری بار ڈیفالٹ کے 15 دن بعد جرمانہ 30 لاکھ تک پہنچ جائے گا۔ قانون کی خلاف ورزی کرنے والے ریٹیلر کا کاروبار سیل بھی کیا جا سکے گا۔

ایم کیو ایم کا احتجاج

قومی اسمبلی میں بجٹ کی منظوری کے لیے اجلاس دو گھنٹے کی تاخیر سے شروع ہوا تو حکومت کی اتحادی جماعت ایم کیو ایم کے ارکان نے شدید احتجاج ریکارڈ کرایا۔ 

وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ ’اس وقت لیوی صفر ہے‘ (فوٹو: پی آئی ڈی)

وزیر کا نام لیے بغیر ایم کیو ایم کے رہنما صابر قائم خانی اور صلاح الدین نے کہا کہ ’ہمارے شہر حیدرآباد میں بجلی نہیں ہے۔ ایئرپورٹ غیر فعال اور ریلوے تباہ ہے۔ اس رویے سے یہ حکومت نہیں چلے گی۔‘
انہوں نے تنقید کی کہ ’سرکاری بینچز سے اپوزیشن بینچز پر جانے میں دیر نہیں لگتی۔ ہمیں جس طرح کی عزت  دی جا رہی ہے اس پر  تھوکتے بھی نہیں۔ ہم اس رویے کے خلاف واک آؤٹ کرتے ہیں۔‘
ایم کیو ایم ارکان کے احتجاج کے ساتھ ہی وفاقی وزراء پہنچ گئے اور واک آؤٹ نہ کرنے کی درخواست کی۔ اس دوران صابر قائم خانی نے غصے میں آ گئے اور وفاقی وزیر ایاز صادق کا ہاتھ جھٹک دیا۔  
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے اس حکومت کی حمایت کرکے بڑی سیاسی قیمت ادا کی ہے۔‘ تاہم بعد میں بات چیت کے ذریعے وفاقی وزراء ایم کیو ایم کو واک آؤٹ کرنے سے روکنے میں کامیاب ہو گئے۔

شیئر: