Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ادے پور میں ہندو درزی کا قتل ’غیر اسلامی قدم‘، انڈیا میں مسلمانوں کی مذمت

انڈین صحافی رعنا ایوب نے اس واقعے کو ’بربریت اور نفرت انگیز‘ قرار دیا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
انڈین ریاست راجستھان کے شہر اُدے پور میں ہندو شہری کے قتل کے بعد کشیدگی برقرار ہے اور شہر میں جمعرات کے روز بھی دفعہ 144 کے نفاذ کے باوجود احتجاجی مظاہرین سڑکوں پر نظر آئے اور پولیس پر پتھراؤ بھی کیا گیا۔
خیال رہے کہ منگل کو اُدے پور میں سوشل میڈیا پوسٹس کے تنازع پر ایک درزی کے قتل کے بعد حالات کشیدہ ہوگئے تھے اور پولیس نے قتل کے الزام میں دو مسلمانوں کو گرفتار کیا تھا۔
انڈین میڈیا کے مطابق کنہیا لال نامی درزی کو ان کی اپنی دکان میں دو افراد نے قتل کیا اور اس کی ویڈیو بھی بنائی اور بعدازاں اس کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے وزیراعظم نریندر مودی کو بھی اسی طرح قتل کرنے کی دھمکی دی تھی۔
انڈیا میں کشیدگی کی شروعات مئی کے مہینے میں اس وقت ہوئی جب حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی رکن نوپور شرما نے پیغمر اسلام کے بارے میں نامناسب گفتگو کی تھی۔
اس واقعے کے بعد بی جے پی کی جانب سے ان کی پارٹی رکنیت معطل کردی گئی تھی۔
انڈین چینل ’این ڈی ٹی وی‘ کے مطابق جمعرات کو متعدد ہندو تنظیموں سے تعلق رکھنے والے مظاہرین زعفرانی جھنڈے اٹھائے سڑکوں پر نکل آئے جس کے بعد پولیس کو انہیں منتشر کرنے کے لیے لاٹھی چارج کرنا پڑا۔
دوسری جانب انڈیا میں متعدد مسلم شخصیات نے نہ صرف کنہیا لال کے قتل کی مذمت کی ہے بلکہ قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
اپنے ایک بیان میں جامع مسجد دہلی کے امام سید احمد بخاری کا کہنا تھا کہ ’اُدے پور میں ہوئے دلخراش، گھناؤنے قتل کے واقعہ نے انسانیت کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔ یہ انسانیت سوز واقعہ جس میں دو شخص ریاض اور غوث بتائے جارہے ہیں ان کا کنہیا نامی شخص کا قتل کرنا اور وہ بھی رحمت العالمین کے نام پر نہ صرف ایک بزدلانہ عمل ہے بلکہ یہ قدم غیر اسلامی، غیر قانونی اور انسانیت سوز ہے۔‘
انڈین صحافی رعنا ایوب نے بھی اپنی ایک ٹویٹ میں اس واقعے کو ’بربریت اور نفرت انگیز‘ قرار دیا۔
انہوں نے اپنی ٹویٹ میں انڈیا کی مسلمان برادری کو دو اشخاص کی جانب سے ’دہشت‘ پھیلانے کے خلاف آواز اٹھانے پر شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ملزمان کی حق میں کوئی ریلیاں نہیں نکالی گئیں۔
سٹوڈنٹس اسلامک آرکنائزیشن آف انڈیا کے رکن محمد سلمان نے ادے پور میں ہونے والے قتل پر کہا کہ ’ہم ادے پور میں کنہیا لال کے قتل کی سختی سے مذمت کرتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس واقعے کی حکام کی جانب سے تحقیقات ہونی چاہییں اور ملزمان کو قانون کے مطابق سزا ملنی چاہیے۔‘
لکھاری سلمان انیس نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ’ اُدے پور میں قتل نفرت کی انتہا کی ایک مثال ہے۔ ہمیں نہ صرف اس کی مذمت کرنے چاہیے بلکہ اپنے معاشرے کو نفرت سے نجات دلانی ہوگی۔‘
آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسدالدین اویسی نے لکھا کہ وہ راجستھان میں ہونے والے قتل کی مذمت کرتے ہیں اور ’اس کا کوئی جواز نہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہمارے جماعت کا مؤقف ہمیشہ تشدد مخالف رہا ہے۔‘
انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ملزمان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے اور قانون کی حکمرانی یقینی بنائی جائے۔
دوسری جانب حکومت نے اس قتل کی تحقیقات نیشنل انویسٹیگیشن ایجنسی کو سونپ دی ہے۔
انڈین حکام کی جانب سے بدھ کو یہ بھی الزام لگایا گیا تھا کہ دونوں ملزمان کے روابط پاکستانی تنظیم دعوت اسلامی سے ہے اور ان میں سے ایک شخص 2014 میں کراچی بھی گیا تھا۔
پاکستان کی حکومت نے انڈیا کے ان الزمات کی خبروں کو مسترد کیا ہے اور کہا ہے کہ انڈین میڈیا کا ایک حصہ غلط طور پر یہ خبر چلا رہا ہے۔
پاکستان کے دفتر خارجہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’ہم نے انڈین میڈیا کے حصے کی اُدے پور قتل کیس کی تحقیقات سے متعلق خبریں دیکھی ہیں جن میں ملزمان کا تعلق پاکستانی تنظیم سے بتایا گیا ہے۔ ہم اس الزام کو قطعی طور پر مسترد کرتے ہیں۔
بیان کے مطابق ’یہ خالصتاً بی جے پی اور آر ایس ایس کا پروپیگنڈا جس کا مقصد انڈیا کے داخلی مسائل کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرانا ہے۔
انڈیا اور بیرون ملک موجود افراد کو گمراہ کن معلومات دینے کی یہ کوششیں کامیاب نہیں ہوں گی۔

شیئر: