Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ضمنی الیکشنز: کس پارٹی کی انتخابی مہم بھاری رہی؟  

سیاسی مبصرین کے مطابق پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ن نے الیکشن مہم بھرپور طریقے سے چلائی گئی (فوٹو: اردو نیوز)
پاکستان کے صوبہ پنجاب میں اتوار کو ہونے والے ضمنی انتخابات کی الیکشن مہم ختم ہوگئی ہے۔ روایتی حریف جماعتوں مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف نے 20 کے 20 حلقوں میں بھرپور انتخابی مہم چلائی ہے۔  
تحریک انصاف کی طرف سے سابق وزیراعظم اور پارٹی چیئرمین عمران خان نے تمام حلقوں کے طوفانی دورے کیے، اپنی انتخابی مہم میں ان کی توجہ کا مرکز سازشی بیانیہ ہی رہا۔
اس کے علاوہ انہوں نے اسٹیبلشمنٹ پر بھی اپنے غصے کا بھرپور اظہار کیا اور کرپشن کے خلاف اپنے پرانے بیانیے کو بھی اپنے ہر خطاب میں دہرایا۔  
دوسری طرف مسلم لیگ ن کی طرف سے مریم نواز نے ضمنی انتخابات کی مہم چلائی، انہوں نے بھی تقریباً ہر حلقے کا دورہ کیا۔
مہم کے آخری دن مریم نواز نے لاہور اور ملتان دونوں جگہ جلسوں سے خطاب کیا۔ ان کی انتخابی مہم کا محور سابقہ خاتون اول بشریٰ بی بی اور ان کی دوست فرح گوگی رہیں۔  
مریم نواز نے اپنی تقریروں میں اپنی پارٹی کی جیت کو مہنگائی ختم کرنے اور ترقیاتی کاموں میں اضافے سے بھی جوڑا، اور وہ عوام کو آنے والے دنوں میں مزید خوش خبریوں کی نوید بھی سناتی نظر آئیں۔  
دونوں مرکزی رہنماؤں کے علاوں بھی دونوں پارٹیوں نے تقریباً ملتی جلتی انتخابی مہم چلائی۔
پنجاب سے مسلم لیگ ن کے چار صوبائی وزرا نے اپنے نشستوں سے استعفے دے کر آخری دنوں میں الیکشن مہم سنبھالی تو تحریک انصاف کے سابق وزرا بھی لاہور سمیت پنجاب کے چاروں حلقوں میں مستقل نظر آتے رہے۔  
اس کے ساتھ ساتھ دونوں جماعتوں کے سوشل میڈیا نے بھی بھرپور طریقے سے انٹرنیٹ کی دنیا میں اپنا سکہ جمائے رکھا۔
اپنے رہنماؤں کی تقریروں کو لائیو نشر کیا گیا۔ تو ان کے کہے ہوئے الفاظ سے ٹرینڈ بھی بنائے گئے۔ جو کہ پاکستان کی روایتی سیاست میں ایک نیا اضافہ ہے۔
اس سے پہلے سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کا پلہ اس معاملے میں ہمیشہ بھاری رہا۔ اس مرتبہ دونوں پارٹیوں کی انتخابی مہم کو ان کی سوشل ٹیموں کے درمیان بھی مقابلے کا تاثر سامنے آیا۔  

چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے پارٹی کی انتخابی مہم کی قیادت کی (فائل فوٹو: عمران خان فیس بک)

لاہور میں کچھ ایسے واقعات بھی سامنے آئے جس میں تحریک انصاف نے مسلم لیگ ن پر سرکاری مشینری استعمال کرنے کے الزام عائد کیے جبکہ ن لیگ کے رہنماؤں نے تحریک انصاف پر پختونخوا سے افراد کو منگوا کر انتخابی کیمپوں پر ہلڑ بازی کرنے کا الزام لگایا۔  
پولیس نے مختلف واقعات میں اور اسلحہ لہرانے پر دونوں پارٹیوں کے درجنوں کارکنوں کو بھی حراست میں لیا۔ سیاسی مبصرین کے مطابق الیکشن مہم دونوں جانب سے بھرپور طریقے سے چلائی گئی۔
تجزیہ کار مجیب الرحمان شامی کے مطابق یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ایک پارٹی کی مہم بھاری تھی اور دوسری کی نہیں، ’دونوں پارٹیوں نے اپنے بیانیے کو بھرپور طریقے سے عوام کے سامنے رکھا ہے۔‘
’یہ سب کچھ اپنے کارکنوں میں گرم جوشی پیدا کرنے کے لیے تھا۔ اب دیکھتے ہیں کہ الیکشن کے روز کس جماعت کے کارکن اپنے ووٹرز کو پولنگ سٹیشنز پر لانے میں کامیاب ہوتے ہیں اور فیصلہ تو ان کے حلقوں کا ووٹر ہی کرے گا۔‘

مسلم لیگ ن کی  جانب سے نائب صدر مریم نواز نے انتخابی مہم چلائی (فائل فوٹو: مریم نواز فیس بک)

سیاسی مبصرین کے مطابق ن لیگ ہمیشہ کی طرح الیکشن ڈے پر اپنے تجربے کی بنیاد پر منصوبہ بندی کرے گی جبکہ تحریک انصاف کا زیادہ دارومدار اپنے نوجوان کارکنوں پر ہوگا۔ اس لیے سارے کا سارا الیکشن ہی کانٹے دار ہونے کی توقع ہے۔  
سیاسی تجزیہ کار حبیب اکرم کے مطابق اگر جوش و جذبے اور متحرک ہونے کی بات کی جائے تو اس میں تحریک انصاف آگے نظر آتی ہے۔
’میں کہوں گا کہ ان ضمنی انتخابات نے عمران خان کی سیاست کو ایک بار پھر پورے طریقے سے زندہ کردیا ہے۔ ن لیگ کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اب بھی زیادہ روایتی طریقہ کار پر انحصار کر رہی ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’دوسری طرف ایک کو چھوڑ کر ان کا اپنا کوئی امیدوار ہی نہیں ہے۔ ان لوگوں کو ٹکٹ دیا گیا ہے جو تحریک انصاف سے منحرف ہوئے تو سوال یہ ہے کہ کیا ن لیگ کا ڈائی ہارڈ ورکر ان امیدواروں سے جذباتی وابستگی رکھتا ہے؟‘
’اس لیے میں کہوں گا کہ مسلم لیگ ن آغاز میں اس الیکشن کو جتنا آسان لے رہی تھی ویسا نہیں ہوگا۔ یہ مقابلہ آخری وقت تک چلے گا۔‘  

شیئر: