Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ڈالر ریکارڈ مہنگا، ’فچ‘ نے بھی ریٹنگ منفی کر دی

سیاسی بے یقینی کے باعث سٹاک مارکیٹ میں گراوٹ بھی نظر آ رہی ہے (فوٹو: اے ایف پی)
سیاسی بےیقینی کے ماحول میں جہاں پاکستان میں روپے کی قدر میں کمی اور سٹاک مارکیٹ میں گراوٹ نظر آ رہی ہے وہاں عالمی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی فچ نے بھی پاکستان کی ریٹنگ مستحکم سے منفی کر دی ہے۔
منگل کو دنیا کی بڑی ریٹنگ ایجنسی کا فیصلہ سامنے آیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’پاکستان میں سیاسی عدم استحکام اور جلد الیکشن سے آئی ایم ایف پروگرام کے حوالے سے پالیسی بھی خطرے کا شکار ہے اور ڈالر کے ذخائر بھی دباؤ میں ہیں۔‘
منگل کے روز پاکستانی کرنسی کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت میں زبردست اضافے کا رجحان نظر آیا۔ ڈالر ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا، فاریکس ڈیلرز کے مطابق ڈالر کی قدر میں پانچ روپے کا اضافہ ہوا اور ملک میں ڈالر 224 روپے کا ہو گیا ہے۔
معاشی ماہرین کا کہنا ہے ڈالر کی قدر میں اضافے کی اہم وجہ ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں مسلسل کمی ہے۔ امپورٹ بل میں ریکارڈ اضافے اور اخراجات میں کمی نہ کرنے کی وجہ سے روپیہ دباؤ میں ہے۔
آئی ایم ایف سے قسط ملنے کے اعلان پر وقتی طور پر روپے کی قدر میں بہتری ہوئی تھی تاہم یہ زیادہ دیر نہ چل سکی۔
ہنگامی بنیادوں پر مضبوط معاشی پالیسی نہ دی گئی تو آنے والے دنوں میں حالات مزید خراب ہو جائیں گے۔ گذشتہ روز ایک ڈالر کہ قیمت 215.19 پر بند ہوئی تھی۔
اس حوالے سے اردو نیوز سے بات معاشی تجزیہ کار خرم حسین کا کہنا ہے کہ ’مارکیٹ میں ڈالر کی قلت ہو گئی ہے اور سیاسی عدم استحکام بھی شدید ہو چکا ہے۔ ان دونوں عوامل نے ملا کر روپے پر بہت پریشر ڈال دیا ہے جس کی وجہ سے پاکستانی کرنسی کی قیمت میں مسلسل کمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔‘
فچ کی ریٹنگ منفی کرنے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اس سے پاکستان کے تاثر پر فرق پڑے گا اور دنیا پاکستان کی معیشت کو اسی تناظر میں دیکھے گی. 

فنچ نے ریٹنگ کیوں منفی کی؟

اپنی ویب سائٹ پر امریکی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی نے پاکستان کی ریٹنگ میں گراوٹ کی سات سے زائد وجوہات دی ہیں۔ سب سے اہم وجوہات میں سیاسی خدشات، زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی اور مالیاتی خسارہ شامل ہیں۔
فچ کے مطابق سال 2022 کے اوائل سے پاکستان کی مالی پوزیشن کے حالات میں بگاڑ نظر آ رہا ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کے سٹاف لیول معاہدے کے باوجود اس کے نفاذ اور مسلسل رسائی کے لیے کافی خطرات نظر آ رہے ہیں۔
سخت اقتصادی اور سیاسی ماحول میں جون 2023 میں پروگرام کی میعاد ختم ہونے کے بعد فنانسنگ ایک مسئلہ ہو گا۔

سیاسی عدم استحکام اور جلد الیکشن سے خدشات


ماہرین کے مطابق ہنگامی بنیادوں پر مضبوط معاشی پالیسی نہ دی گئی تو آنے والے دنوں میں حالات مزید خراب ہو جائیں گے: فائل فوٹو اے ایف پی

ایجنسی کے مطابق نئے سرے سے سیاسی اتار چڑھاؤ کو خاص طور پر سست ترقی اور بلند افراط زر کے موجودہ ماحول میں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا اور یہ ملک کی مالی اور بیرونی ایڈجسٹمنٹ کو نقصان پہنچا سکتا ہے، جیسا کہ 2022 اور 2018 کے اوائل میں ہوا۔
ویب سائٹ کے مطابق سابق وزیراعظم عمران خان جنہیں 10 اپریل کو عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے معزول کر دیا گیا تھا، نے حکومت سے قبل از وقت انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا ہے اور ملک بھر کے شہروں میں بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے کر رہے ہیں۔
نئی حکومت کو پارٹیوں کے ایک متضاد اتحاد کی حمایت حاصل ہے جس کی پارلیمنٹ میں صرف ایک چھوٹی اکثریت ہے۔ باقاعدہ انتخابات اکتوبر 2023 میں ہونے والے ہیں، جس سے آئی ایم ایف پروگرام کے اختتام کے بعد پالیسی میں عدم استحکام کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔

زرمبادلہ ذخائر پر دباؤ

فچ کے مطابق پاکستان کے زرِمبادلہ کے زخائر دباؤ میں ہیں۔ محدود بیرونی فنڈنگ ​​اور بڑے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے نے زرمبادلہ کے ذخائر کو ختم کر دیا ہے کیونکہ سٹیٹ بینک آف پاکستان نے کرنسی کی قدر میں کمی کو کم کرنے کے لیے ذخائر کا استعمال کیا ہے۔
پاکستان کے ڈالر کے ذخائر جون 2022 تک تقریباً دس ارب ڈالر یعنی موجودہ بیرونی ادائیگیوں کے صرف ایک ماہ سے زیادہ رہ گئے ہیں جو ایک سال پہلے تقریباً 16 ارب ڈالر سے کچھ کم تھے۔
فچ نے کہا کہ ان کا تخمینہ ہے کہ جون 2022 کو ختم ہونے والے مالی سال میں کرنٹ اکاونٹ خسارہ سترہ ارب ڈالر تک پہنچ گیا جس کی وجہ تیل کی عالمی قیمتوں میں اضافہ اور درآمدات میں اضافہ ہے۔
مالیاتی سختی، بلند شرح سود، توانائی کی کھپت کو محدود کرنے کے اقدامات اور درآمدات مالی سال 2023 میں خسارے کو دس ارب ڈالر تک محدود رہنے کی ہماری پیشن گوئی کو تقویت دیتی ہیں۔
فچ کے مطابق مالی سال  2023 میں پاکستان کا قرض تقریباً اکیس ارب ڈالر تک پہنچ جائے گی۔

شیئر: