Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستانی عدلیہ کی عالمی رینکنگ،’رول آف لا انڈیکس میں خامی نہیں‘

ورلڈ جسٹس پراجیکٹ (ڈبلیو جے پی) نے اپنے رول آف لا انڈیکس میں پاکستان کی پوزیشن کو ایک بار پھر درست قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس کی رینکنگ کے نظام میں خامیاں نہیں ہیں بلکہ یہ دنیا بھر کے ماہرین سے منظور شدہ ہے اور مستقبل میں بھی یہی طریق کار جاری رکھا جائے گا۔
رواں ماہ کے آغاز میں پاکستان کے چیف جسٹس کی سربراہی میں کام کرنے والے ادارے لاء اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان نے ورلڈ جسٹس پراجیکٹ کو خط لکھ کرکہا تھا کہ ’پاکستان کی عدلیہ کی عالمی رینکنگ رپورٹ مفروضوں پر مبنی ہے اور رول آف لاء انڈیکس 2021 میں کئی دیگر خامیاں بھی ہیں۔‘
خط کے حوالے سے ورلڈ جسٹس پراجیکٹ کے رول آف لا انڈیکیس کی کوڈائریکٹر ایلیشیا ایوانجیلائڈز نے اردو نیوز کو ایک ای میل انٹرویو میں بتایا کہ ’پاکستان کے اعتراض کے باجود ’مستقبل میں بھی رول آف لا انڈیکس کی تیاری کا طریق کار تبدیل نہیں ہو گا۔‘
ورلڈ جسٹس پراجیکٹ کی سال 2021 کی رپورٹ میں پاکستانی عدالتی نظام کو قانون کی حکمرانی کی پابندی کرنے والے ممالک میں سب سے نچلے نمبر 139 ممالک میں سے 130 ویں نمبر پر رکھا گیا تھا۔
 لاء اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان کی جانب سے انڈیکس میں خامیوں کی نشاندھی کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’رول آف لا انڈیکس کی تیاری کا طریق کار اور قانون کی بالادستی کی تعریف دنیا کے 100 ممالک کے سترہ شعبہ جات کے ماہرین کی بھرپور مشاورت اور منظوری سے وجود میں آئے ہیں۔‘
ایک اور سوال پر ایلیشیا ایوانجیلائڈز کا کہنا تھا کہ انڈیکس صرف عدلیہ کی کارکردگی کا جائزہ نہیں لیتا بلکہ یہ ہر ملک میں قانون کی حکمرانی کا جائزہ لیتا ہے جس میں صرف عدلیہ ہی نہیں دیگر ادارے بھی شامل ہیں۔
ورلڈ جسٹس پراجیکیٹ کی اہلکار کے مطابق کسی ملک کی عدلیہ کی صورتحال انڈیکس کے کئی عوامل میں نظر آتی ہے جیسا کہ حکومتی اختیار میں رکاوٹ، دیوانی اور فوجداری انصاف۔ تاہم انڈیکس کی تیاری میں کئی اور عوامل  بھی شامل ہوتے ہیں جیسا کہ شفاف حکومت، بنیادی حقوق اور ریگولیٹری عمل درآمد وغیرہ۔
اس سوال پر کہ 2021 کی رپورٹ میں پاکستان سے حاصل کیا گیا 2019 کا ڈیٹا استعمال کیا گیا، ایلیشیا ایوانجیلائڈز نے کہا کہ ’ہم نے عام طور پر دیکھا ہے کہ ہاؤس ہولڈ ڈیٹا ہر ایک سال کے بعد زیادہ تبدیل نہیں ہوتا۔‘

ورلڈ جسٹس پراجیکٹ کی رپورٹ میں پاکستانی عدالتی نظام کو قانون کی حکمرانی کی پابندی کرنے والے ممالک میں130 ویں نمبر پررکھا گیا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

انڈیکس کے سکور بناتے وقت ہاؤس ہولڈ ڈیٹا کے ساتھ ساتھ ماہرین کا ڈیٹا بھی استعمال ہوتا ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ 2021 کے انڈیکس کی تیاری میں ہاؤس ہولڈ ڈیٹا تو 2019 کا استعمال ہوا مگر ماہرین کا ڈیٹا 2021  کا ہی استعمال کیا گیا۔
انڈیکس کے سکور میں ماہرین کے ڈیٹا کا اثر 65 فیصد ہوتا ہے جبکہ ہاؤس ہولڈ ڈیٹا کا اثر صرف 26 فیصد ہوتا ہے جبکہ نو فیصد تھرڈ پارٹی سورسز سے حاصل معلومات کا ہوتا ہے۔
لا اینڈ جسٹس کمیشن سے جاری اعلامیہ کے مطابق رپورٹ میں ظاہر کردہ اعداد و شمارمفروضوں، منظر نامے اور جواب دہندگان کے ’خیال‘ پر مبنی ہیں۔ ورلڈ جسٹس پراجیکٹ کی رپورٹ میں پاکستانی عدالتی نظام کوقانون کی حکمرانی کی پابندی کرنے والے ممالک میں سب سے نچلے نمبر 139 ممالک میں سے 130 ویں نمبر پررکھا گیا ہے۔
اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ ڈبلیو جے پی کی رپورٹ کے شائع کردہ ڈیٹا تک پہنچنے کے لیے استعمال کیے گئے طریقہ کار نے بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے۔
جنرل پاپولیشن پول (جی پی پی ) نئی رپورٹ پرانے اعداد وشمار کے ساتھ ظاہر کیا گیا ہے، پاکستان میں، گیلپ پاکستان نے 2019 میں نامعلوم شہروں سے 1,000 جواب دہندگان کے ساتھ آمنے سامنے انٹرویوز کیے اور یہ ڈیٹا انڈیکس 2020 اور موجودہ سال کی انڈیکس رینکنگ کے لیے بھی استعمال کیا گیا ہے۔

اعلامیے کے مطابق ’پاکستان میں عدلیہ نے مقدمات کو جلد نمٹانے کو یقینی بنایا ہے‘ (فائل فوٹو: پکس ہیئر)

اعلامیہ کے مطابق منتخب کردہ جواب دہندگان نہ صرف علاقائی طور پر محدود تھے بلکہ اس میں کوئی معلومات بھی شامل نہیں کی گئیں کہ آیا کہ ان کا پاکستان میں کسی قانونی یا انصاف کے شعبے سے متعلق کسی محکمے کے ساتھ براہ راست رابطہ یا بات چیت کا تجربہ تھا۔ اتنے چھوٹے نمونے، محدود علاقوں اور غیر نمائندہ انتخاب پر مبنی سروے 230 ملین آبادی کی رائے کی درست عکاسی نہیں کرتا۔
’یہ اعداد و شمار ایک ’مفروضہ منظر نامے‘ اور جواب دہندگان کے ’خیال‘ پر مبنی تھے۔‘
پاکستان میں انصاف کی انتظامیہ سے متعلق کارکردگی کا جائزہ لیتے ہوئے نہ تو لاء اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان اور نہ ہی اس کی ویب سائٹ یا اس جیسے اداروں پر متعلقہ ڈیٹا پر غور کیا گیا۔
اعلامیے میں مزید کہا گیا تھا کہ پاکستان میں عدلیہ نے ہمیشہ قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھا ہے اور مقدمات کو جلد نمٹانے کو یقینی بنایا ہے۔
قومی عدالتی پالیسی ساز کمیٹی نے بھی اس عزم کا اظہارکررکھا ہے کہ پاکستان کا عدالتی نظام عوام کو مایوس نہیں کرے گا، اوراسی بناء پر عدالتیں کورونا ( کوویڈ19) جیسے وبائی مرض کے دوران بھی لگن اور ثابت قدمی سے کام کر رہی ہیں۔

لا اینڈ جسٹس کمیشن کے مطابق ’پولیس، پراسکیوشن، وکلا اور عوام الناس کا رپورٹ میں ذکر نہیں‘(فائل فوٹو: اے ایف پی)

 لا اینڈ جسٹس کمیشن نے کیا اعتراضات اٹھائے تھے؟

اس سے قبل پاکستان کے لا اینڈ جسٹس کمیشن کی جانب جاری اعلامیے میں بتایا گیا تھا کہ امریکہ میں قائم ورلڈ جسٹس پراجیکٹ کو بھیجی جانی والی ای میل میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کی عدلیہ کے حوالے سے 2021 کی رپورٹ میں کئی خامیاں ہیں۔
خط میں بتایا گیا تھا کہ رول آف لا انڈیکس کی تیاری میں نو عوامل میں سے صرف دو عوامل کا تعلق عدلیہ سے ہے جو کہ سول جسٹس اور کریمینل جبکہ باقی سات عوامل کا تعلق گورننس سسٹم، معاشرتی عوامل اور حکومتی کارکردگی سے ہے۔
رول آف لا انڈیکس 2021 کے مطابق سول جسٹس میں پاکستان کی دنیا میں 139 میں سے 124 ویں پوزیشن ہے جبکہ کریمینل جسٹس میں 108 ویں پوزیشن ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان دو عوامل میں بھی عدلیہ کے علاوہ دیگر ادارے جیسے پولیس، پراسکیوشن، وکلا برادری، جیل خانہ جات اور عوام الناس بھی شامل ہیں، مگر اس رپورٹ میں ان عوامل کا ذکر نہیں حالانکہ ان پر عدلیہ کا کوئی اختیار نہیں۔
اسی طرح رینکنگ کے حوالے سے طریقہ کار پر بھی سوالات اٹھتے ہیں کیونکہ اس میں پرانا ڈیٹا بھی استعمال کیا گیا ہے جو کہ گیلپ پاکستان نے 2019 میں ایک ہزار لوگوں سے انٹرویوز کرکے تیار کیا تھا۔

ورلڈ جسٹس پراجیکٹ کے مطابق ’مستقبل میں بھی رول آف لا انڈیکس کی تیاری کا طریق کار تبدیل نہیں ہوگا‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

آئندہ دو سال بھی یہی ڈیٹا استعمال کیا گیا ہے، جن لوگوں کے انٹرویوز کیے گئے ہیں وہ بھی علاقے کی بنیاد پر نہیں اور نہ ہی بتایا گیا ہے کہ کیا ان کا براہ راست قانون و انصاف سے متعلقہ اداروں  سے پالا بھی پڑا ہے یا صرف مفروضوں پر مبنی ان کی رائے ہے۔ خط کے مطابق چھوٹے سروے سے 23 کروڑ لوگوں کی رائے کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔
خط میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان میں عدلیہ نے ہمیشہ قانون کی عمل داری اور کیسز کو جلد حل کرنے کو یقینی بنایا ہے۔
خط کے مطابق سال 2021-2022 کے دوران پاکستان کی عدالتوں نے 56 لاکھ سے زائد کیسز نمٹائے ہیں جبکہ اسی عرصے میں 55 لاکھ سے بھی کم نئے کیسز عدالتوں میں آئے ہیں، اس طرح زیر التوا کیسز کی تعداد میں کمی کی گئی ہے۔
خط کے مطابق یہ سب واضح کرتا ہے کہ پاکستانی عدلیہ تمام مسائل کے باوجود کیسز کو جلد نمٹانے کے حوالے سے پرعزم ہے۔
ورلڈ جسٹس پراجیکٹ سے خط کے ذریعے کہا گیا ہے کہ اپنی آئندہ رپورٹوں میں ان اعتراضات کو مدنظر رکھا جائے تاکہ پاکستان کے نظام انصاف کے حوالے سے حقیقی تصویر سامنے آسکے۔

شیئر: