Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امریکی صدر کے دورہ سعودی عرب کے دوران کیا کچھ طے پایا؟

امریکی صدر نے شاہ سلمان اور ولی عہد محمد بن سلمان سے ملاقات کی تھی (فوٹو: روئٹرز)
امریکی صدر کے دورہ سعودی عرب کے موقع پر مغربی میڈیا کی زیادہ تر توجہ رسمی معاملات پر مرکوز رہی اور کئی اہم نکات سامنے نہیں آئے، تاہم اس دوران کن اہم معاملات پر بات ہوئی اور کون کون سے معاہدے ہوئے، ان کی تفصیلی رپورٹ عرب نیوز نے شائع کی ہے۔
صدر جو بائیڈن کے مشرق وسطیٰ کے چار روزہ دورے کا آغاز 13 جولائی کو اسرائیل اور فلسطین سے ہوا تھا جو سعودی عرب میں اہم ملاقاتوں پر اختتام پذیر ہوا۔
اس دوران سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان طے پانے والے معاہدوں کا ایک اہم نکتہ صدر جو بائیڈن کی جانب سے سعودی سرزمین کو بیرونی حملوں سے بچانے میں مدد دینے کے عزم کا اعادہ ہے۔
دونوں ممالک نے خطے کے استحکام کے حوالے سے مشترکہ عزم کا اظہار بھی کیا جس میں اقوام متحدہ کی ثالثی میں یمن میں ہونے والی جنگ بندی کو برقرار رکھنے، اس میں توسیع اور تنازع کے حل کے لیے سفارتی عمل کو مکمل کرنا بھی شامل ہے۔
جو بائیڈن نے جنگ بندی کے لیے سعودی عرب کے عزم کو سراہا جس سے صنعا سے عمان اور قاہرہ کے لیے براہ راست پروازیں چلانے میں مدد ملی اور یمن میں بنیادی سروسز کی فراہمی اور معاشی استحکام میں بھی بہتری آئی۔
دونوں ممالک کے درمیان اس امر پر بھی اتفاق کیا گیا کہ تجارت کے بہاؤ کو برقرار رکھنے اور سٹریٹیجک آبی گزرگاہوں کے ذریعے یمن میں سمگلنگ روکنے کے لیے کوششوں کو تیز کیا جائے گا۔

امریکی صدر مشرق وسطٰی کے دورے کے آخر میں سعودی عرب پہنچے تھے (فوٹو: اے ایف پی)

 دونوں جانب سے اس پر بھی اتفاق کیا گیا کہ جزیدہ طیران کے لیے امن دستے سال کے آخر تک روانہ ہوں گے جس کے بعد جزیرے کو سیاحتی مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
خیال رہے کہ 1978 میں ہونے والے کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے فوراً بعد امریکی فوجیوں نے جزیزہ طیران پر امن دستے کے طور پر خدمات دی تھیں۔
اسی طرح سعودی عرب نے ویژن 2030 کے ایجنڈے کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے 1944 میں ہونے والے شکاگو کنونشن کے اصولوں کے مطابق تمام سویلین جہازوں کے لیے اپنی فضائی حدود کھولنے کا اعلان بھی کیا۔
سعودی عرب اور امریکہ کی قیادت نے دونوں ممالک کے شہریوں کے لیے کاروباری اور سیاحتی ویزے کی میعاد دس سال تک بڑھانے پر بھی اتفاق کیا۔
مملکت کی وزارت مواصلات و ٹیکنالوجی نے آئی بی ایم کے ساتھ ایک یادداشت پر دستخط کیے ہیں جس کے تحت ادارہ پانچ سال میں ایک لاکھ سعودی شہریوں کو تربیت دے گا۔
بائیڈن کے دورے کی ایک خاص بات یوکرین اور روس کی جنگ کے نتیجے میں روس پر پابندی کے نتیجے میں توانائی کے بحران سے بچنا بھی تھا اور اسی تناظر میں سعودی عرب اور امریکہ نے عالمی منڈی میں تیل کا توازن قائم رکھنے کے عزم کا اعادہ بھی کیا۔
 امریکی حکام کی جانب سے جولائی اور اگست میں تیل کی پیداوار میں 50 فیصد تک اضافے کے حوالے سے سعودی عرب کے عزم کا خیرمقدم کیا گیا تاہم سعودی ولی عہد نے یہ بھی واضح کیا کہ مملکت تیل کی ماہانہ پیداوار 13 ملین بیرل سے نہیں بڑھائے گا۔

جو بائیڈن نے سعودی قیادت سے ملاقاتیں کیں (فوٹو: عرب نیوز)

سعودی عرب کے وزیر مملکت برائے خارجہ امور عادل الجُبیر نے امریکی صدر کے دورے کے دوران عرب نیوز کو انٹرویو میں بتایا تھا کہ ’سعودی عرب کی کوشش ہے کہ تیل کی منڈی میں توازن قائم رہے تاکہ اس امر کو یقینی بنایا جا سکے کہ مناسب سپلائی جاری رہے اور کمی نہ آنے پائے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’تیل کی طلب کو پورا کرنے کے لیے سعودی عرب مارکیٹ کا جائزہ جاری رکھے گا اور ضرورت کے مطابق فیصلے کرے گا۔‘
امریکہ کی جانب سے سرمایہ کاری میں شراکت داری پر سعودی عرب کا خیرمقدم کیا گیا۔
اسی طرح سعودی سائبر سکیورٹی کے حوالے سے دو معاہدوں پر بھی دستخط کیے گئے، جن میں سے ایک ایف بی آئی اور دوسرا ہوم لینڈ سکیورٹی ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ ہوا۔
دونوں ممالک کی قیادت کے درمیان ہونے والی ملاقاتوں میں یہ عزم بھی ظاہر کیا گیا کہ سعودی عرب اور امریکہ اپنے مشترکہ دفاع کے لیے تعاون کو بڑھائے گا اور کسی بھی قسم کی خطرناک سرگرمیوں کے حوالے سے معلومات کا تبادلہ کریں گے، جبکہ سائبر سیکورٹی کی تربیت کے لیے بہترین طریقہ کار اور ٹیکنالوجی کے ٹولز استعمال کیے جائیں گے۔

شیئر: