Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا پرویز الٰہی اپنے طرزِ حکومت سے عثمان بزدار بننا پسند کریں گے؟

سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق پرویز الٰہی اپنی پارٹی کو مضبوط کرنے کی کوشش کریں گے۔ فائل فوٹو: اے پی پی
پاکستان تحریک انصاف عدالت میں مقدمہ جیت کر صوبہ پنجاب کا اقتدار واپس حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکی ہے۔ سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے انتخاب کے بعد پنجاب مکمل طور پر تحریک انصاف کے کنٹرول میں آ چکا ہے۔ تاہم فرق صرف یہ ہے کہ اب پنجاب میں وزارت اعلیٰ کے منصب پر پی ٹی آئی کے عثمان بزدار کے بجائے مسلم لیگ ق کے پرویز الٰہی براجمان ہیں۔  
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین کے بارے میں تاثر یہ ہے کہ سنہ 2013 کے انتخابات میں کامیابی کے بعد جب پی ٹی آئی نے خیبر پختونخوا میں حکومت بنائی تو عمران خان پانچ سال تک اسے بنی گالا میں بیٹھ کر چلاتے رہے اور بڑے حکومتی فیصلے بھی بنی گالا میں ہی ہوتے تھے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ صوبائی حکومت کے اکثر اجلاس بنی گالا میں ہوا کرتے تھے۔ 
خیبرپختونخوا کی اپوزیشن جماعتیں پشاور کے فیصلے بنی گالہ میں ہونے پر احتجاج بھی کرتی رہی ہیں۔
اُس وقت کے وزیراعلٰی پرویز خٹک اگرچہ بعض اوقات عمران خان کے لیے مشکلات پیدا کرتے رہے لیکن مجموعی طور پر تحریک انصاف کے چیئرمین کی ہی مرضی چلتی رہی۔
کئی صوبائی سرکاری اداروں کے ملازمین ان فیصلوں کے خلاف پشاور میں وزیراعلٰی ہاوس یا اسمبلی کے باہر احتجاج کرنے کے بجائے اسلام آباد آ کر بنی گالا میں عمران خان کی رہائش گاہ کے باہر احتجاج کرتے تھے۔ 
سنہ 2018 کے انتخابات میں کامیابی کے بعد تحریک انصاف نے خلاف توقع عثمان بزدار کو پنجاب کا وزیراعلیٰ بنایا تو جس تاثر نے زور پکڑا وہ یہی تھا کہ عمران خان وفاق میں بیٹھ کر پنجاب حکومت چلانا چاہتے ہیں۔
چار سال کے اقتدار میں پنجاب میں جب بھی فیصلہ سازی کا وقت آیا تو عثمان بزدار نے عمران خان کی طرف دیکھا اور عموماً فیصلے بھی عمران خان ہی کرتے رہے۔ بزدار حکومت کے خاتمے کے بعد میڈیا پر آنے والے سکینڈلز بھی اس بات کی طرف ہی اشارہ کرتے ہیں کہ عثمان بزدار کا کردار محدود تھا۔  

تجزیہ کار ماجد نظامی کے مطابق پرویز الٰہی کا طرز حکومت عثمان بزدار سے یکسر مختلف ہوگا۔ فائل فوٹو: اے پی پی

اب پنجاب اسمبلی میں 10 نشستیں رکھنے والے پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ بن چکے ہیں تو صورت حال بڑی دلچسپ ہے۔ پاکستان تحریک انصاف سمجھتی ہے کہ پنجاب میں ان کی حکومت ہے جبکہ مسلم لیگ ق سمجھتی ہے کہ ان کی حکومت ہے۔
اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے پنجاب کی سیاست کی باریکیوں کو سمجھنے والے تجزیہ کار سلمان غنی کہتے ہیں کہ ’ق لیگ پالیسی، احکامات اور اقدامات میں کلی آزاد ہو گی جبکہ پی ٹی آئی کے اراکین سمجھتے ہیں کہ یہ ان کی حکومت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے نام پر یہ پرویز الہی کی حکومت ہے اور وہ حکومت چلانے کا تجربہ رکھتے ہیں۔ پرویز الٰہی زیادہ دباؤ نہیں لیں گے۔ ویسے بھی اپنے انتخاب کے باوجود ان کی بارگینگ پوزیشن بڑھی ہے، اسمبلی توڑنے جیسے اقدام کا مرحلہ آیا تو ن لیگ ان کے پیچھے کھڑی ہو سکتی ہے اور اسی لیے وہ ن لیگ کو زیادہ ٹارگٹ نہیں کریں گے۔‘  
اردو نیوز کے ساتھ گفتگو میں سلمان غنی نے کہا کہ ’پرویز الٰہی اس سے پہلے پنجاب کے ایک مضبوط وزیراعلیٰ رہ چکے ہیں، وہ دباؤ ایک خاص حد تک لیں گے۔ وہ یقیناً عثمان بزدار ثابت نہیں ہوں گے۔ ان کے پیش نظر تحریک انصاف کو مضبوط کرنا نہیں بلکہ وہ ق لیگ کو مضبوط کرتے ہوئے اگلے انتخاب میں جانا ہے۔ اگرچہ وہ کہہ رہے ہیں کہ دو سیکنڈ میں اسمبلی توڑ دوں گا لیکن میرا نہیں خیال کہ وہ صرف خان صاحب کے کہنے پر اسمبلی توڑیں گے۔ البتہ اگر ملک میں عام انتخابات کے لیے کوئی وسیع پیمانے پر جا کر فیصلہ ہوتا ہے تو وہ یہ اقدام کر گزریں گے لیکن عمران خان کے حکم پر اسمبلی نہیں توڑیں گے کیونکہ منظور وٹو نے اسمبلی توڑی تھی تو وہ آج تک نادم ہیں۔ سیاسی لوگ اسمبلیاں نہیں توڑتے۔‘ 
اس حوالے سے تجزیہ کار و اینکر اجمل جامی کا کہنا تھا کہ ’پرویز الٰہی کبھی عثمان بزدار نہیں بنیں گے۔ ان کا سیاسی قد کاٹھ بھی انھیں عثمان بزدار بننے کی اجازت نہیں دیتا۔ جب وہ سپیکر تھے تو عمران خان اور پرویز الٰہی کے درمیان رابطے کے لیے مرحوم نعیم الحق اہم کردار ادا کرتے تھے۔ ان کے بعد اس رابطے میں دقت آئی لیکن بعد ازاں سیاسی حالات نے ایک دوسرے کی محبت میں اضافہ کیا ہے۔ ق لیگ کے 10 لوگ نہ ہوں تو تحریک انصاف حکومت نہیں بنا سکتی۔‘ 

پنجاب میں تحریک انصاف کے لیے ق لیگ کی حمایت کے بغیر حکومت بنانا ممکن نہ تھا۔ فائل فوٹو: پی ٹی آئی ٹوئٹر

انھوں نے کہا کہ ’ضروریات بدل چکی ہیں لیکن ایک دوسرے پر انحصار بڑھ چکا ہے۔ جب انحصار بڑھ جائے تو پھر آپ وہ فارمولا استعمال نہیں کر سکتے جو عثمان بزدار پر لاگو کیا جاتا تھا۔ پرویز الٰہی جانتے ہیں کہ عمران خان کو کیسے ہینڈل کرنا ہے اور پنجاب خود چلانا ہے۔ اگر عمران خان وزیراعظم ہوتے تو صورت حال مختلف ہوتی لیکن اس وقت پرویز الٰہی وزیراعلیٰ ہیں اس لیے اس ماڈل میں انھیں عثمان بزدار نہیں بنایا جا سکتا۔‘  
پنجاب کے سیاست کے بارے میں گہری معلومات رکھنے والے صحافی ماجد نظامی نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’سنہ 2013 میں جب پرویز خٹک کو خیبر پختونخوا میں وزیراعلیٰ بنایا تھا تو عمران خان کو تجربہ ہوا تھا کہ طاقت ور وزیر اعلیٰ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اسی وجہ سے سنہ 2018 میں پنجاب میں عثمان بزدار اور خیبر پختونخوا میں محمود خان کو لایا گیا۔ پرویز الٰہی کو وزیراعلٰی بنانا ایک ہنگامی فیصلہ تھا۔ تاہم وہ عثمان بزدار سے مضبوط وزیراعلٰی ہوں گے۔ وہ اب اپنی مستقبل کی سیاست کو مضبوط کریں گے اور ایسے حلقے تلاش کریں گے کہ اپنی 10 سیٹوں کو 20 تک لے جا سکیں۔‘  
انھوں نے کہا کہ ’پی ٹی آئی اور ق لیگ کا ورکنگ ریلیشن شپ موجود ضرور تھا لیکن اتنا آئیڈیل نہیں تھا۔ عدم اعتماد سے پہلے پی ٹی آئی پرویز الٰہی کو وزیر اعلیٰ بنانے سے انکار کر چکی تھی جبکہ مونس الٰہی کو بھی وزارت دینے سے پہلے بہت زیادہ لڑائیاں ہوتی رہی ہیں۔ سیاسی حالات نے اس ورکنگ ریلیشن شپ میں بہتری ضرور پیدا کی ہے لیکن اس کے باوجود پرویز الٰہی کا طرز حکومت عثمان بزدار سے بالکل مختلف ہوگا۔‘  

شیئر: