Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سابق مشیر داخلہ شہزاد اکبر کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کرنے کی منظوری

سابق مشیر برائے داخلہ و احتساب بیرسٹر شہزاد اکبر آج کل برطانیہ میں مقیم ہیں (فائل فوٹو: پی آئی ڈی)
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے دور حکومت میں ایسیٹ ریکوری یونٹ کے سربراہ و سابق وزیراعظم عمران خان کے سابق مشیر برائے داخلہ و احتساب بیرسٹر شہزاد اکبر کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں شامل کردیا گیا۔
بیرسٹر شہزاد اکبر کا نام ای سی ایل میں شامل کرنے کی منظوری منگل کے روز وفاقی کابینہ کے اجلاس میں دی گئی۔ وزارت داخلہ کے حکام کے مطابق بیرسٹر ضیا المصطفیٰ نسیم کا نام بھی ای سی ایل پر ڈال دیا گیا ہے۔
دونوں کے خلاف بحریہ ٹاؤن کی برطانیہ میں منجمد رقم عدالت سے باہر تصفیہ کے ذریعے پاکستان لاکر قومی خزانے میں جمع کروانے کے بجائے بحریہ ٹاون پر عائد جرمانے کی مد میں سپریم کورٹ میں جمع کروانے کا الزام ہے۔ 
وفاقی کابینہ ان دو افراد کے علاوہ بھی دیگر آٹھ افراد کے نام ای سی ایل پر ڈالے جن کی سفارش سکیورٹی اداروں کی جانب سے کی گئی تھی، تاہم شہزاد اکبر کا نام نیب کی درخواست پر ای سی ایل پر ڈالا گیا۔ 
وفاقی کابینہ نے سابق سینیٹر گلزار خان کے بیٹے عمار خان کو ایک مرتبہ بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی، ان کے خلاف بھی نیب میں بدعنوانی کا کیس چل رہا ہے۔
بیرسٹر شہزاد اکبر آج کل برطانیہ میں مقیم ہیں اور وہ سابق وزیراعظم عمران خان کے سابق مشیر برائے داخلہ و احتساب بھی رہے۔
کابینہ نے اس معاملے پر وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کی سربراہی میں کمیٹی بھی تشکیل دے رکھی تھی جس کی رپورٹ کابینہ اجلاس میں پیش کی گئی۔ 
ذرائع کے مطابق کمیٹی نے برطانیہ میں منجمد 41 ارب روپے کے حوالے سے عدالت سے باہر تصفیہ، رقم کی واپسی اور کابینہ اجلاس میں رقم بحریہ ٹاؤن کو واپس دینے کی منظوری میں شہزاد اکبر اور ایسٹ ریکوری یونٹ کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔
 اس کمیٹی کے قیام کے ساتھ ہی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ تحریک انصاف کی سابق حکومت کی ملک ریاض سے ضبط رقم کو پاکستان منتقل کرنے کے حوالے سے ڈیل کے بارے میں ایک خفیہ دستاویز منظرعام لائے تھے اور اس حوالے سے تحقیقات کا اعلان کیا تھا۔

رانا ثنا اللہ نے دعویٰ کیا تھا کہ ’برطانیہ سے آنے والی رقم کی منتقلی کے عوض بحریہ ٹاؤن نے 458 کنال اراضی القادر ٹرسٹ کو عطیہ کی‘ (فائل فوٹو: وکی پیڈیا)

وزیر داخلہ نے دعویٰ کیا تھا کہ ’سابق مشیر احتساب شہزاد اکبر نے مبینہ طور پر 19 کروڑ پاؤنڈز (50 ارب روپے) کے ضبط شدہ فنڈز کی واپسی کے لیے کک بیکس کی مد میں 5 ارب روپے لیے جو مبینہ طور پر برطانیہ بھیجے گئے تھے۔‘
وزیر داخلہ نے کہا تھا کہ برطانیہ سے آنے والی رقم کی منتقلی کے عوض معاہدے کے تحت بحریہ ٹاؤن نے 458 کنال قیمتی اراضی القادر ٹرسٹ کو عطیہ کی۔‘
’اس معاہدے پر بحریہ ٹاؤن کے ساتھ دستخط کرنے والی شخصیت سابق خاتون اول بشریٰ بی بی تھیں کیونکہ القادر ٹرسٹ کے 2 ہی ٹرسٹی ہیں ایک عمران خان اور دوسری بشریٰ بی بی۔‘
وفاقی وزیر نے کہا تھا کہ ’القادر ٹرسٹ کی طرح بشریٰ بی بی کی دوست فرحت شہزادی کو بھی بنی گالہ میں 240 کنال زمین دی گئی۔‘
خفیہ دستاویزات میں کیا تھا؟ 
حکومت کی جانب سے جو دستاویزات منظرعام پر لائی گئیں ان دستاویزات میں سے اس وقت کے وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب اور ایسٹ ریکوری یونٹ کے سربراہ شہزاد اکبر کا وزیراعظم کو لکھا گیا نوٹ بھی شامل ہے۔
اس نوٹ کے تحت وزیراعظم عمران خان نے نیشنل کرائم ایجنسی، بحریہ ٹاؤن اور ایسیٹ ریکورٹی یونٹ کے درمیان خفیہ معاہدے کی منظوری دی۔  

وفاقی کابینہ کے اجلاس میں رقم بحریہ ٹاؤن کو واپس دینے کی منظوری میں شہزاد اکبر کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے (فائل فوٹو: پی ایم آفس)

اس نوٹ کے مطابق ’14 دسمبر 2018 کو برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) نے پاکستانی شہریت رکھنے والے علی ریاض ملک اور مبشرہ ملک کے 20 ملین برطانوی پاؤنڈ مشکوک ٹرانزیکشن کے تحت منجمد کیے۔
اس کے بعد این سی اے نے مذکورہ شہریوں کے خلاف کیسز، انکوائریز اور تحقیقات کے حوالے سے تفصیلات کے لیے رابطہ کیا۔ ایسیٹ ریکوری یونٹ اور دیگر متعلقہ اداروں نے برطانوی ایجنسی کو متعلقہ ریکارڈ اور تفصیلات فراہم کیں۔‘  
شہزاد اکبر کی جانب سے سابق وزیراعظم عمران خان کو لکھے گئے نوٹ کے مطابق ’نیشنل کرائم ایجنسی نے مذکورہ خاندان کے بینک اکاؤنٹس اور حال ہی میں لندن میں خریدی گئی وین ہائیڈ پراپرٹی سے متعلق تفتیش کا آغاز کیا۔
’نتیجتاً 12 اگست 2019 کو این سی اے نے مذکورہ خاندان کے برطانیہ کے مختلف بینک اکاؤنٹس میں موجود 119 ملین برطانوی پاؤنڈ بھی منجمد کردیے۔‘  
وزیراعظم کو لکھے گئے نوٹ میں بحریہ ٹاؤن کے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ اس دوران سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کی جانب سے خلاف قواعد زمین کے حصول سے متعلق کیس کا فیصلہ بھی دیا جس میں بحریہ ٹاؤن انتظامیہ کو مقررہ مدت میں رقم جمع کرانے کا حکم دیا گیا تھا۔ 

’این سی اے نے علی ریاض ملک اور مبشرہ ملک کے 20 ملین برطانوی پاؤنڈ مشکوک ٹرانزیکشن کے تحت منجمد کیے‘ (فائل فوٹو: گیٹی امیجز)

اسی فیصلے کی روح کے مطابق مدعی (بحریہ ٹاؤن) نے این سی اے سے برطانیہ میں اپنی قانونی ٹیم کے ذریعے رابطہ کیا اور عدالت سے باہر تضفیے کی پیش کش کی۔
اس کے تحت تمام منجمد اکاونٹ میں موجود 139.7 ملین برطانوی پاؤنڈ سپریم کورٹ کے فیصلے کے روشنی کے مطابق واجب الادا رقم کی صورت میں پاکستان واپس لانے کی پیش کش کی۔‘ 
نوٹ میں لکھا گیا ہے کہ ’معاہدے کے مطابق مدعی (ملک ریاض خاندان) لندن کی ون ہائیڈ پارک کی پراپرٹی بھی فروخت کے لیے ایک آزاد ایجنٹ کے حوالے کرے گا۔
’اس سے حاصل کی گئی تمام رقم دو سال کے اندر ریاست پاکستان کے حوالے کرے گا اور یہ رقم بھی مذکورہ بالا معاہدے کی طرح سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت واجب الادا رقم میں جمع ہوگی۔‘

شیئر: