Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ ملک ریاض کے پیسے سپریم کورٹ میں جمع ہوں گے‘

وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ ’ بحریہ ٹاؤن کے سربراہ ملک ریاض کے لندن سے آنے والے 19 کروڑ پاؤنڈز سپریم کورٹ میں جمع ہوں گے جبکہ حکومت نے عدالت سے درخواست کی ہے کہ یہ رقم سندھ کو دینے کے بجائے وفاق کو دی جائے۔‘
جمعرات کو اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے شہزاد اکبر نے مزید کہا کہ ’یہ ایک تاریخی موقع ہے اور ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ کسی دوسرے ملک سے رقم پاکستان آئی ہے، اس حوالے سے پریس ریلیز پہلے ہی جاری کی جا چکی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’رقم کی منتقلی کسی عدالتی مقدمے کے نتیجے میں نہیں بلکہ ایک تصفیے کے ذریعے ہوئی ہے، اگر عدالتی معاملہ شروع ہو جاتا تو پانچ سات سال لگ سکتے تھے، ہم برطانوی حکومت اور نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے اتنے کم وقت میں اس معاملے کو نمٹایا۔‘

 

نیوز کانفرنس کے دوران انہوں نے 19 کروڑ پاؤنڈز کی پاکستان منتقلی سے بات شروع کی اور کہا کہ ’یہ رقم پاکستان کے قریباً 27،28 ارب روپے بنتے ہیں۔‘
صحافیوں نے ان کی تصحیح کراتے ہوئے کہا کہ ’19 کروڑ پاؤنڈز قریباً 39 ارب روپے بنتے ہیں جس پر انہوں نے کہا کہ ’میں غریب آدمی ہوں، قریباً 250 ملین ڈالر بنتے ہیں، اس کے آگے کیلکولیٹر بھی ختم ہو جاتا ہے۔‘
قبل ازیں شہزاد اکبر نے بات کرتے ہوئے اُس وقت تک ملک ریاض کا نام نہیں لیا جب تک صحافیوں کی جانب سے نشان دہی نہیں کروا دی گئی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ معاملہ دسمبر 2018 میں شک کی بنیاد پر شروع ہوا تھا اور دو کروڑ پاؤنڈز منجمد کیے گئے تھے جس کے بعد مزید رقم بھی منجمد کی گئی۔ اس میں ون ہائیڈ پارک کا ایک مکان بھی تھا، ساتھ ہی یہ شرط بھی کہ یہ پیسے پاکستان کو دیے جائیں گے۔‘
معاون خصوصی نے کہا کہ ’اس میں جُرم ثابت ہونے کا عنصر شامل نہیں ہے، برطانیہ نے ہماری حکومت پر اعتماد کا مظاہرہ کرتے ہوئے پیسے ٹرانسفر کیے جو ہماری کامیابی ہے، آنے والے دنوں میں کچھ مزید پیسے آئیں گے۔ ہمارا تو مقصد یہ ہے کہ ملک کا پیسہ لوٹایا جائے، ہمیں کسی کو جیلوں میں رکھنے کا شوق نہیں۔‘

شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ آنے والے دنوں میں مزید پیسے پاکستان آئیں گے، فوٹو: پی آئی ڈی

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’اس پورے معاملے میں حکومت کا کردار معاونت کا تھا، برطانوی ادارہ آزاد ہے، اس حوالے سے ’رازداری کے معاہدے‘ پر بھی دستخط کیے گئے ہیں جس کی زیادہ تفصیلات نہیں بتائی جا سکتیں۔‘تصفیے کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر انہوں نے کہا کہ ’سپریم کورٹ میں تصفیہ ہوا ہے، جے آئی ٹی نے کراچی میں جو کام کیا تھا اسی کے نتیجے میں یہ ساری کارروائی ہوئی۔‘
ایک صحافی کی جانب سے جب یہ سوال پوچھا گیا کہ ’آپ کی لندن میں ملک ریاض کے ساتھ ملاقات کی ویڈیو موجود ہے جس میں وہ آپ کو ایک بیگ دیتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں‘ اس کے جواب میں شہزاد اکبر نے کہا کہ ’وہ میرے لیپ ٹاپ کا بیگ تھا، 190 ملین پاؤنڈز بیگ میں نہیں آتے۔‘ اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ’میں نے پتا کروا لیا ہے کہ وہ ویڈیو کس نے بنوائی۔‘

شہباز شریف پر الزامات

مسلم لیگ ن کے صدر اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کا ذکر کرتے ہوئے شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ ’ان کے اثاثوں میں 10 سال کے دوران 70 گنا اضافہ ہوا، حمزہ شہباز اور سلمان شہباز کے اثاثوں میں بھی ہوشربا اضافہ دیکھنے میں آیا۔

شہزاد اکبر نے الزام لگایا کہ شہباز شریف کے اثاثوں میں 10 برس کے دوران 70 گنا اضافہ ہوا، فوٹو: اے ایف پی

شہزاد اکبر نے کہا کہ ’نومبر 2018 میں نیب نے تحقیقات کا آغاز کیا تو معلوم ہوا کہ شہباز شریف کے اثاثوں میں 10 برس کے دوران 70 گنا اور سلمان شہباز کے اثاثوں میں ایک ہزار گنا اضافہ ہوا ہے جبکہ حمزہ شہباز کے اثاثوں میں بھی زبردست اضافہ ہوا۔انہوں نے کہا کہ سلمان شہباز بھگوڑے ہیں جن کی جائیداد ضبط کرنے کا عمل شروع ہو چکا ہے۔‘
شہباز شریف سے شہزاد اکبر کے 18 سوالات
معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے نیوز کانفرنس کے دوران سابق شہباز شریف سے 18 مختلف سوالات کیے اور صحافیوں سے بھی کہا کہ اگر آپ کی وزیراعلیٰ پنجاب سے ملاقات ہو تو ان سے یہ سوالات ضرور پوچھیں۔
1) کیا نثار احمد گل وزیر اعلیٰ کے ڈائریکٹر برائے سیاسی امور اور علی مہر ڈائریکٹر سٹریٹجی اور پالیسی کے عہدوں پر فائز نہیں تھے؟
2) کیا یہ دونوں افراد فرضی کمپنی گڈ نیچر کے مالکان نہیں تھے؟
3) کیا علی مہر اور نثار گل سابق وزیراعلیٰ کے فرنٹ مین نہیں تھے؟

 

4) کیا شہباز شریف کا ڈائریکٹر سیاسی امور نثار احمد گِل ان کے بیٹے سلمان شہباز کے ساتھ مختلف غیر ملکی دوروں پر نہیں گیا؟
5) کیا نثار گل نے اپنے بینک اکاؤنٹ کے فارم میں وزیراعلیٰ کے مشیر برائے سیاسی امور کا عہدہ اور پتا وزیراعلیٰ ہاؤس نہیں لکھوایا تھا؟
6) کیا مسرور انور اور شعیب قمر نے جی این سی کے اکاؤنٹس سے کروڑوں روپے آپ کے ذاتی اکاؤنٹ میں ٹرانسفر نہیں کیے؟
7) کیا آپ نے اس رقم سے تہمینہ درانی کے لیے وسپرنگ پوائنٹ میں دو ولاز نہیں خریدے تھے؟
8) کیا مسرور انور اور شعیب قمر نے جی ایل سی کے اربوں روپے آپ کے دونوں بیٹوں سلمان شہباز اور حمزہ شہباز کے اکاؤنٹس میں منتقل نہیں کیے؟
9) کیا جی ایل سی سے نقد اربوں روپے نکال کر سابق وزیراعلیٰ اور ان کے خاندان کے اندرون و بیرون ملک اخراجات کے لیے استعمال نہیں کیے گئے؟
10) کیا وزیراعلیٰ کے پولیٹیکل ڈائریکٹر نثار احمد گِل کے اکاؤنٹ سے شہباز شریف کے دونوں بیٹوں کو رقم منتقل نہیں کی گئی تھی؟
11) کیا جی ایل سی نے بالواسطہ شہباز شریف کے چپڑاسی ملک مقصود کے اکاؤنٹس میں ایک کروڑ روپے منتقل نہیں کیے؟
12) کیا جی ایل سی مالکان کو وزیراعلیٰ آفس میں تعینات کر کے شہباز شریف کالے دھن کو سفید کرنے کے گھناؤنے کاروبار کی سرپرستی نہیں کرتے تھے؟

شہزاد اکبر کے مطابق گذشتہ 10 سال کے دوران سلمان شہباز کے اثاثوں میں ہزار گنا اضافہ ہوا، فوٹو: سوشل میڈیا

13) کیا آپ کی رہائش گاہ میں کمیشن اور کِک بیک کی رقم وصول نہیں ہوتی رہی؟ اور کیا اس رقم کو شریف گروپ کے دفتر 55 کے ماڈل ٹاؤن میں منتقل کرنے کے لیے آپ کی ذاتی بلٹ پروف گاڑی اور ایلیٹ فورس کے اہلکار استعمال نہیں کیے گئے؟
14) کیا شہباز شریف کے خاندان نے اپنے اور ذاتی دوستوں کے اکاؤنٹس میں لاہور کے مختلف منی چینجرز کے ذریعے جعلی ٹی ٹیز نہیں لگوائیں؟
15) کیا ان ٹی ٹیز کی رقم آپ نے اپنی ذاتی رہائش گاہ 96 ایچ ماڈل ٹاؤن لاہور کی تعمیر پر خرچ نہیں کی؟
16) کیا دبئی کی چار کمپنیاں جو سلمان شہباز اور بیگم نصرت کے اکاؤنٹس میں ٹی ٹیز کے ذریعے رقوم منتقل کرتی رہیں، کیا یہ وہی کمپنیاں نہیں جو آصف علی زرداری اور اومنی گروپ کے لیے بھی منی لانڈرنگ کا کام کرتی رہیں؟
17) کیا ڈی ایف آئی ڈی کے دیے گئے پیسے سے شہباز شریف کے داماد علی عمران نے کرپشن نہیں کی؟
18) آپ کب لندن کی عدالتوں میں ڈیلی میل کے صحافی اور میرے (شہزاد اکبر کے) خلاف ہرجانے کا دعویٰ کریں گے؟

شیئر: