Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کپتان کی جیت: پنجاب ضمنی الیکشن میں آخر ہوا کیا؟

پنجاب اسمبلی کے 20 حلقوں میں اتوار کو ہونے والے ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کی شاندار فتح نے ملکی سیاست میں ہلچل مچا دی ہے۔
 سابق وزیراعظم عمران خان کی جماعت نے تمام اندازوں کو غلط ثابت کرتے ہوئے اتنی واضح کامیابی حاصل کی کہ مسلم لیگ نواز کے رہنماؤں کو بھی تسلیم کرنا پڑا کہ پی ٹی آئی کو لینڈ سلائیڈ فتح ملی ہے۔
پاکستان کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں اب تحریک انصاف نہ صرف وزارت اعلی کی نشست حاصل کرنے کے قریب ہے بلکہ پاکستان کی قومی سیاست میں بھی اب عمران خان طاقتور ترین افراد میں شامل ہو گئے ہیں۔
اب تک کے غیر سرکاری عیر حتمی نتائج کے مطابق پی ٹی آئی 20 میں سے 15 نشستیں جبکہ حکمران مسلم لیگ نوازچار نشستوں پر کامیابی حاصل کر چکے ہیں۔ ایک سیٹ آزاد امیدوار نے جیت لیا۔
سیاسی ماہرین کے مطابق انتخابات میں عمران خان کی کامیابی اور مسلم لیگ ن کی شکست میں کئی عوامل نے اہم کردار ادا کیا۔

عمران خان کے بیانیے کی مقبولیت

اس سال اپریل میں تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں اقتدار سے محروم ہونے کے بعد سابق وزیراعظم عمران خان نے اپنی حکومت کے خلاف عالمی سازش کا بیانیہ اپنایا اور ’مقامی ہینڈلرز‘ اور اپوزیشن کو اس سازش میں شریک قرار دیتے ہوئے ’حقیقی آزادی‘ کے لیے مزاحمتی تحریک شروع کی جسے کافی مقبولیت حاصل ہوئی۔
اس حوالے سے ملک بھر میں بڑے بڑے جلسے کرکے انہوں نے اپنے حامیوں کو نہایت پرجوش کر دیا۔ پنجاب میں ضمنی الیکشن کی مہم کے دوران بھی چھوٹے چھوٹے شہروں میں ان کے بڑے بڑے جلسوں میں عوام کی تعداد سے ان کی مقبولیت واضح ہو گئی۔
اس دوران انہوں نے ناصرف حکومت پر تنقید کی بلکہ اسٹیبلشمنٹ پر وار جاری رکھے اور نام لیے بغیر ’مسٹر ایکس اور مسٹر وائے‘ پر انتخابات پر اثرانداز ہونے کے الزامات بھی عائد کیے۔
عمران خان کی الیکشن مہم میں واضح ہو رہا تھا کہ ان کے لیے عوامی حمایت کی ایک لہر چل پڑی ہے۔

مسلم لیگ ن کا کمزور بیانیہ اور مہنگائی

ایک طرف عمران خان کا مضبوط بیانیہ تھا تو دوسری طرف ’ووٹ کو عزت دو‘ کے نعرے لگانے والی مسلم لیگ ن اس بار اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مفاہمت کی پالیسی کے باعث کسی پرکشش بیانیے سے محروم تھی۔
رہی سہی کسر حکومت کے آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے لیے کیے گئے مشکل فیصلوں کے نتیجے میں ہونے والی مہنگائی نے نکال دی۔
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تقریبا سو روپے فی لیٹر کے اضافے نے عام آدمی کی زندگی نہایت مشکل کر دی تھی۔ گو الیکشن سے چند دن قبل عالمی مارکیٹ میں قیمتوں میں کمی کے بعد پٹرول کی قیمت میں اٹھارہ روپے اور ڈیزل کی قیمت میں چالیس روپے کی کمی اور سو یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والوں کو مفت بجلی دینے کے اعلان سے کچھ ریلیف دینے کی کوشش گئی مگر شاید دیر ہو چکی تھی اور مہنگائی سے تنگ عوام نے ووٹ کے ذریعے اپنا غصہ دکھایا۔

پارٹی سے باہر امیدواروں کو ٹکٹ دینے سے ناراضگی

ضمنی الیکشن ان حلقوں میں ہو رہے تھے جہاں سے حمزہ شہباز کا ساتھ دینے والے منحرف اراکین ڈی سیٹ ہوئے تھے اس لیے مسلم لیگ نے ان 20 میں سے 19 حلقوں میں اپنے پارٹی ورکر کے بجائے پی ٹی آئی کے منحرف ارکان کو ٹکٹ دیے تھے۔
مگر شاید پارٹی کے کارکن منحرف ارکان کو قبول کرنے کو تیار نہیں تھے اور پارٹی کے اپنے مقامی امیدواروں نے بھی کھل کر ٹکٹ ہولڈرز کا ساتھ نہیں دیا اس وجہ سے انتخابی مہم موثر نہ ہو سکی۔
شاید یہی وجہ ہے کہ آخری دنوں میں کئی وفاقی اور صوبائی وزرا نے استعفے دے کر مہم چلائی اور پارٹی کی نائب صدر مریم نواز بھی ایک ایک حلقے میں خود جلسے کرتی رہیں تاہم اس کے باوجود کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔
سیاسی تجزیہ کار حامد میر کا کہنا ہے کہ ن لیگ کے ووٹر نے منحرف ارکان کو قبول نہیں کیا۔

الیکشن کمیشن شفاف الیکشن کرانے میں کامیاب

پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت کے باوجود ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی کی کامیابی نے یہ بھی ثابت کر دیا ہے کہ الیکشن صاف اور شفاف ہوئے۔ پی ٹی آئی نے الیکشن مہم کے دوران چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ اور الیکشن کمیشن پر الزامات عائد کیے اور حکومتی مشینری کے استعمال کی شکایت بھی کی تاہم آخری نتائج سے واضح ہوا کہ پی ٹی آئی کی جیت میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی گئی۔
سابق وزیراعظم عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ پر بھی الزام عائد کیا کہ وہ مسٹر ایکس اور وائے کے ذریعے انتخابات پر اثر انداز ہو رہے ہیں تاہم اتوار کے نتائج سے یہ الزامات بھی ختم ہو گئے۔
دوسری طرف مسلم لیگ کے رہنماؤں مریم نواز شریف اور ملک احمد خان نے نتائج تسلیم کرکے بھی الیکشن کی شفافیت کو تسلیم کیا۔

شیئر: