Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عدالت نے شہباز گِل کا مزید دو دن کا جسمانی ریمانڈ منظور کر لیا

اسلام آباد کی مقامی عدالت نے بغاوت پر اُکسانے کے کیس میں پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شہباز گِل کا دو روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کر لیا ہے۔
پیر کو جوڈیشل مجسٹریٹ امان ملک نے جسمانی ریمانڈ دیتے ہوئے پولیس کو حکم دیا کہ ملزم کو 24 اگست کو دن ایک بجے دوبارہ عدالت میں پیش کیا جائے۔
جوڈیشل مجسٹریٹ نے ہدایت کی کہ ’شہباز گِل کو جب بھی ضرورت ہو طبی سہولیات اور علاج معالجہ فراہم کیا جائے۔‘
عدالت نے کہا کہ وکلاء اور اہل خانہ کو ملاقات کی اجازت ہوگی۔
اس سے قبل سپیشل پراسیکیوٹر راجہ رضوان عباسی نے اپنے دلائل میں ایڈیشنل سیشن جج فرخ علی خان کا آرڈر پڑھ کر سنایا۔
انہوں سماعت کے دوران کہا کہ دو دن پمز ہسپتال میں رہنے کے دوران دو روزہ جسمانی ریمانڈ ختم نہیں کیا جا سکتا۔
شہباز گِل کے وکیل بابر اعوان نے سماعت کے دوران دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ان کے موکل سے پولیس نے آخر کیا ریکور کرنا ہے؟
انہوں نے کہا کہ شہباز گِل کو تفتیش کے دوران شہباز گِل کو برہنہ کیا گیا۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں کہنا چاہتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’جیسے لوگوں کو اعتکاف میں چھپا کر لایا جاتا ہے، ویسے شہباز گِل کو عدالت لے کر آئے ہیں۔‘

’مجھے جیل بھیجا جائے‘

جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں جب شہباز گِل کو پیش کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ وہ دمہ کے مریض ہیں تاہم اب شدید اٹیک کے بعد صحتیاب ہو گئے ہیں۔
شہباز گِل کا کہنا تھا کہ ’آپ کی سوچ ہے جو پولیس میرے ساتھ کر رہی ہے۔ ہسپتال میں بھی مجھ سے تفتیش ہوتی رہی۔‘
انہوں نے عدالت سے کہا کہ ’جیل میں بھیجا جائے، میں وہاں تفتیش میں تعاون کرنے کے لیے تیار ہوں۔‘
شہباز گِل نے مزید کہا کہ انہوں نے اداروں کے خلاف بات نہیں کی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اگر میرا کوئی ایسا بیان آتا ہے تو تشدد سے لیا جائے گا۔ میں نے تحریک انصاف کے خلاف کوئی بات نہیں کی۔ میں نے امریکہ میں رہ کر بھی اپنے ملک سے محبت کی۔‘
شہباز گِل نے عدالت کو بتایا کہ ان پر عمران خان کے خلاف بیان دینے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔
’ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں کہ اس کے بعد بھی میرا کوئی بیان آئے تو میرا نہیں ہو گا۔‘

شہباز گِل نے عدالت کو بتایا کہ ان کو جیل بھیجا جائے۔ (فوٹو: سکرین گریب)

جسمانی ریمانڈ کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں فیصلہ محفوظ

پیر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے تحریک انصاف کے رہنما شہباز گِل کے مزید جسمانی ریمانڈ کے خلاف درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔
کیس کی سماعت کے دوران تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ ’ٹیلی ویژن پروگرام میں گفتگو کے لیے شہباز گِل نے بنی گالہ میں عمران خان کی رہائش گاہ کا لینڈ لائن نمبر استعمال کیا۔‘
کیس کی سماعت کرتے ہوئے قائم مقام چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ ٹیلی ویژن پروگرام کے دوران شہباز گِل سٹوڈیو میں تھے یا فون پر جس پر تفتیشی افسر نے بتایا کہ شہباز گِل نے لینڈ لائن نمبر سے فون پر بات کی جو بنی گالہ میں عمران خان کی رہائشگاہ کا نمبر ہے۔
قائم مقام چیف جسٹس عامر فاروق نے اس پر سوال کیا کہ اگر کال لینڈ لائن نمبر سے ہوئی تو موبائل کیوں چایے جس پر تفتیشی افسر نے بتایا کہ شہباز گِل نے دوران تفتیش بتایا ہے کہ وہ موبائل سے دیکھ کر پڑھ رہے تھے۔
جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ کیا تفتیش کرنی ہے اور شہباز گِل کی کیوں کسٹڈی چاہیے جس پر سپیشل پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے بتایا کہ موبائل فون ریکور کرنا ہے۔
سپیشل پراسیکیوٹر نے مزید کہا کہ جو ٹرانسکرپٹ پڑھ کر سنایا گیا، وہ بھی برآمد کرنا ہے اور شہباز گِل کا پولی گرافک ٹیسٹ بھی کرانا ہے۔
تفتیشی افسر نے قائم مقام چیف جسٹس کے سوال پر بتایا کہ پولی گرافک ٹیسٹ کی سہولت اسلام آباد میں نہیں لاہور میں پنجاب فرانزک لیب میں موجود ہے۔
جس پر شہباز گِل کے وکیل کا کہنا تھا کہ پولی گرافک ٹیسٹ جیل میں بھی کرایا جا سکتا ہے۔
سپیشل پراسیکیوٹر نے واضح کیا کہ جسمانی ریمانڈ پندرہ دن کا ہوتا ہے جو مختلف مراحل میں بھی دیا جا سکتا ہے تاہم پندرہ دن سے زیادہ جسمانی ریمانڈ نہیں دیا جا سکتا۔

شہباز گِل پر دوران حراست تشدد کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ فوٹو: سکرین گریب

جسٹس عامر فارق نے سوال کیا کہ اگر اس کے بعد بھی تفتیش کی ضرورت ہو تو پھر جیل میں تفتیش کی جائے گی، اور اگر دوران تفتیش کوئی ملزم بیمار ہو جائے تو کیا ہوگا؟ جس پر سپیشل پراسیکیوٹر نے بتایا کہ ’بیمار اور زخمیوں کے لیے بھی رولز موجود ہیں، زندگی ہے تو سب کچھ ہے۔‘

شہباز گِل کی مقامی عدالت میں پیشی

دوسری جانب اسلام آباد پولیس نے پیر کو 12 بجے پمز ہسپتال سے شہباز گِل کو اسلام آباد کچہری میں پیش کر دیا تھا۔
عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملزم ہے فائل نہیں ہے۔ جس پر شہباز گل کے وکیل نے بتایا کہ ریکارڈ اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہے وہاں پر فیصلہ محفوظ ہوا ہے۔
شہباز گِل نے موقف اپنایا کہ ’ایس پی نوشیروان مجھے لے کر آیا ہے اور کہا آپ کی ضمانت ہو گئی۔ مجھے سکرین شارٹ دکھایا گیا اور کہا گیا کہ ضمانت ہو گئی مچلکے جمع کرانے ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’پرائیوٹ گاڑی میں مجھے بٹھایا گیا اور ادھر لے آئے۔ کل رات سے میں بھوک ہڑتال پر ہوں مجھ سے کسی سے نہیں ملنے دیا جا رہا۔‘
شہباز گِل نے عدالت کو بتایا کہ ’کل رات 12 بندے میرے کمرے میں آئے مجھے پکڑا اور زبردستی کیلا اور جوس پلایا۔ رات تین بجے پھر چھ سات لوگ آئے مجھے کھانا کھلانے کی کوشش کی گئی۔‘
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ’مجھے زبردستی باندھ کر دس 12 بندوں نے شیو کی، میں مونچھے نہیں رکھتا مونچھے چھوڑ دی گئیں۔ ‘
جج نے ریمارکس دیے کہ ’اس کا یہ مطلب تو نہیں آپ بھوک ہڑتال پر چلے جائیں۔‘
شہباز گِل کے وکلا نے کہا کہ ’عدالت نے حکم دیا کہ وکلاء سے ملنے کی اجازت دی جائے لیکن ملنے نہیں دیا جا رہا۔‘
عدالت نے کہا کہ ’اسلام آباد ہائی کورٹ کا حکم نامہ کدھر ہے اس کو دیکھ کر حکم دوں گا۔‘

شیئر: