Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا بینک کی نوکری اب ’بیگار کیمپ‘ جیسی ہے؟

ایڈووکیٹ حسن رشید کے مطابق ملازمت کے معاہدے کی منسوخی کا اختیار بینک کے پاس ہی ہوتا ہے۔(فائل فوٹو: اے ایف پی)
’’بینک کی ملازمت بہت کچھ سکھاتی ہے لیکن اسے مستقل ذریعہ معاش نہیں بنانا چاہیے کیونکہ مسلسل کام آپ کی صحت کو متاثر کرتا ہے اور دباو اتنا ہوتا ہے کہ بظاہر پر سکون نظر آنے والے بینک افسران اندر سے شدید خوف کا شکار ہوتے ہیں کیونکہ جاب سکیورٹی نہ ہونے کے برابر ہے۔ بینک کی ملازمت اب ڈریم جاب نہیں رہی۔‘‘  
یہ کہنا ہے حال ہی میں دس سال بینک ملازمت میں گزار کر اس شعبہ کو چھوڑنے والے محمد وقاص کا جنھوں نے کم و بیش بینک کے تمام شعبہ جات اور آپریشنل مینیجر تک کے فرائض سرانجام دیے۔

وہ وقت جب بینک جاب خوشحالی اور سماجی عزت کی ضامن تھی 

ایک زمانے میں بینک ملازمت کو خوشحالی، وقار اور عزت و مرتبے کا ذریعہ مانا جاتا تھا۔ بینک اپنے ملازمین کو تننخواہ کے علاوہ بھی بیش بہا مراعات دیتے تھے جس سے معاشرے میں بینک ملازمین کا مقام نمایاں ہو جاتا۔
 پھر زمانہ بدلا اور تجارتی سرگرمیوں کے عروج کے ساتھ ہی بینکاری کے شعبے میں بھی ترقی ہوئی۔ ایک شہر میں ایک ہی بینک کی کئی کئی برانچیں کھل گئیں۔ اس سے جہاں ملازمتوں کے وسیع مواقع میسر آئے وہیں بینکاری کے جدید طریقوں کی وجہ سے ملازمین کی عیاشیاں بھی ختم ہوگئیں۔
بینک جو کبھی دو بجے بند ہو جایا کرتے تھے اب صبح نو بجے سے شام ساڑھے پانچ بجے تک صارفین کے لیے کھلے رہتے ہیں اور عملہ اپنا کام ختم کرکے ہی گھر جا سکتا ہے بصورت دیگر کسی کسٹمر کی ناراضگی متعلقہ بینک ملازم کو اس کے پاؤں چھونے تک مجبور کر سکتی ہے۔  

’ٹائی کوٹ لگا کر دفتر جانے کا خواب‘

محمد وقاص کا تعلق ایک متوسط گھرانے سے ہے۔ لاہور کی ایک یونیورسٹی سے ایم بی اے کرنے کے بعد ان کا خواب تھا کہ کسی بینک میں ملازمت مل جائے اور وہ صبح اٹھ کر ٹائی کوٹ لگا کر بینک جائیں اور ایک بہترین کارپوریٹ ماحول میں کام کرتے ہوئے اپنا کیریئر بنائیں اور پیسہ کمائیں۔  

ایک زمانے میں بینک ملازمت کو خوشحالی، وقار اور عزت و مرتبے کا ذریعہ مانا جاتا تھا۔ (فوٹو: پکسلز)

’آنے کا وقت مقرر ہے جانے کا نہیں

محمد وقاص کہتے ہیں کہ اپنی خواہش کے مطابق نوکری بھی مل گئی اور اس شوق میں کہ آگے بڑھنا ہے اور باہر کے ماحول سے بینک کا ماحول بھی بہتر محسوس ہوا، سو پہلا مہینہ بڑا اچھا گزرا۔ پہلا دھچکا تب لگا جب پتہ چلا کہ ’بینک میں آنے کا وقت تو ہوتا ہے لیکن واپس گھر جانے کا کوئی وقت نہیں ہوتا۔
انھوں نے کہا کہ عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ بینک کی ملازمت ایک آسان کام ہے اور بینک کے بہترین ماحول میں ملازمین ایک طے شدہ طریقہ کار کے تحت کام کر رہے ہیں لیکن ایسا نہیں ہوتا بلکہ حقیقت اس کے سو فیصد برعکس ہے۔

’بونس اور ترقی کے پیچیدہ معیار‘

محمد وقاص نے کہا کہ ضوابط اتنے سخت بنا دئیے گیے ہیں کہ ایک نارمل انسان کے لیے اس پر پورا اترنا ممکن ہی نہیں رہا یہی وجہ ہے کہ بینکوں میں بونس اور دیگر مراعات کا حصول اتنا مشکل بنا دیا گیا ہے کہ آپ اپنی طرف سے پوری محنت کے باوجود اسے حاصل نہیں کر سکتے۔
’’یہ اب ٹیم ورک سے منسلک ہے۔ ٹیم کے کسی رکن کی کوتاہی سے باقی تمام کی کامیابی اور محنت کو بھی نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے بینک ملازمین کے درمیان ذاتی مخاصمت کا عنصر زیادہ پایا جاتا ہے۔‘‘
محمد وقاص کے مطابق بینک میں کامیاب ملازمت وہی کر سکتا ہے جسے بات گھما پھرا کر کرنی آتی ہو چاہے وہ کسٹمر کے ساتھ ہو یا پھر اعلیٰ افسران کو ڈیل کرنا ہو۔  
بینکاری کا شعبہ کیونکہ براہ راست عوام سے تعلق رکھتا ہے تو اس میں کسی بھی صارف کا اطمینان کسی بھی بینک کے لیے بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب بینک نو سے پانچ بجے تک کام نہیں کرتے بلکہ بینکوں نے ایسے افسران بھی تعینات کر رکھے ہیں جن کا کام خاص کسٹمرز کو ہمہ وقت ڈیل کرنا ہوتا ہے تاکہ بینک کا ٹرن اوور زیادہ سے زیادہ ہو۔  

محمد وقاص کے مطابق بینک میں کامیاب ملازمت وہی کر سکتا ہے جسے بات گھما پھرا کر کرنی آتی ہو۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

خالد مشتاق بھی ایک بینکار ہیں اور کم و بیش آٹھ سال سے اس شعبہ سے وابستہ ہیں۔ اسلام آباد اور دیگر شہروں میں خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بینک میں ملازمت اس لیے اچھی لگتی تھی کہ بہترین لباس پہن کر ایک اچھی شخصیت بن کر وائٹ کالر جاب کے لیے جانا ہی باقی شعبوں سے ممتاز کر دیتا تھا۔ لیکن جب کام کا بوجھ پڑا تو سمجھ آیا کہ حقیقت کچھ اور ہے۔ 
خالد مشتاق کے مطابق اس شعبے میں ترقی اور پیسہ کمانے کے امکانات موجود ہیں لیکن اس کے لیے بہت زیادہ محنت اور ڈسپلن درکار ہے۔ خاص طور پر سیلز کے شعبہ میں مارکیٹنگ کے گُر سے اچھی طرح واقف ہونا انتہائی ضروری ہے۔   
بینک ملازمت میں جاب سیکیورٹی بالکل بھی نہیں ہے۔ آپ بے شک مہینے اور سال کے بہترین ملازمت کے ایوارڈ لے چکے ہوں کوئی ایک شکایت یا کوڈ آف کنڈکٹ کی معمولی سی خلاف ورزی آپ کے کیریر پر فل سٹاپ لگا سکتی ہے۔‘‘  

’اصل کام تو پانچ بجے کے بعد شروع ہوتا ہے

 خالد مشتاق کا کہنا ہے کہ بینک کا اصل کام تو پانچ بجے کے بعد شروع ہوتا ہے کیونکہ جب صارفین کا آنا بند ہوتا ہے تو بینکار اپنا آپریشنل کام شروع کرتے ہیں جو رات کے 12 بجے تک بھی جاری رہ سکتا ہے۔   

’واقفیت زیادہ کام آسان، واقفیت کم ہدف مشکل‘

بینک ملازمت کے حوالے سے کارپوریٹ قوانین کے ماہر ایڈووکیٹ حسن رشید صدیقی نے اردو نیوز کو بتایا کہ بینکنگ کا پورا نظام طے شدہ اہداف کے حصول کی تگ و دو میں چلتا ہے۔ اگر آپ ایسے علاقے میں تعینات ہیں جہاں آپ کی واقفیت زیادہ ہے تو ہدف پورا کرنا آسان ہوتا ہے لیکن اگر آپ کسی بڑے شہر میں ہیں تو ہدف مشکل ہو جاتا ہے۔ 

سٹیٹ بینک کے مطابق کمرشل بینکوں اور ان کے ملازمین کے مابین ملازمت کے معاملات اس کی عملداری میں نہیں آتے۔ (فائل فوٹو)

’نوکری کے معاہدوں میں انتظامیہ کی اجارہ داری‘

بینک ملازمین اپنی ملازمت کے وقت جس کنٹریکٹ پر دستخط کرتے ہیں وہ اتنا تکنیکی ہوتا ہے کہ نئی نئی ملازمت کی خواہش میں اس میں شامل شرائط اور ذمہ داریاں بظاہر معمولی لگتی ہیں لیکن بعد ازاں معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک مشکل کام ہے۔
ایڈووکیٹ حسن رشید صدیقی نے کہا کہ جہاں تک اضافی وقت میں کام کرنے کا تعلق ہے تو لیبر قوانین اس حوالے سے واضح ہیں لیکن پاکستان میں دفاتر کے اندر آپریشنل معاملات میں ان کا اطلاق نہ ہونے کے برابر ہے۔ اگر کوئی ملازم ان معاملات کو لیبر قوانین کے تناظر میں متعلقہ فورم تک لے کر جائے تو اس کا ازالہ ہو سکتا ہے لیکن بینک ملازمت میں ملازمت کے معاہدے کی منسوخی کا اختیار بھی بینک کے پاس ہی ہوتا ہے۔ اس لیے بہت کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ بینک ملازمین نے بینک انتظامیہ کے خلاف ملازمین کے حقوق کے حوالے سے کوئی مقدمہ درج  کروایا ہو۔  

’سٹیٹ بینک ملازمین کے معاملات سے لاتعلق‘

سٹیٹ بینک کے سینیئر حکام کے مطابق کمرشل بینکوں اور ان کے ملازمین کے مابین ملازمت کے معاملات اس کی عملداری میں نہیں آتے۔ کسی شکایت کی صورت میں یا ملازمت کے قواعد و ضوابط اور مراعات کے بارے میں ریلیف صرف عدالتوں سے مل سکتا ہے اور بینک ملازمین اپنے مسائل کے حل کے لیے عدالت سے رجوع کر سکتے ہیں۔ 
تاہم حسن رشید صدیقی کے مطابق ملازمین کو عدالت سے ریلیف بھی اسی صورت مل سکتا ہے جب ان کے نوکری کے معاہدوں میں اس بات کی گنجائش ہو جو کہ زیادہ تر معاملات میں نہیں ہوتی۔

شیئر: