Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’آمدن اٹھنی، بل ایک روپیہ‘، شہری بجلی کے بل ادا کرنے سے قاصر کیوں؟

لیسکو کے ترجمان کے مطابق لیسکو اپنی مرضی سے بجلی کے بل جاری نہیں کرتا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان میں اس وقت مہنگائی کے بھوت سے زیادہ بڑا مسئلہ بجلی کے غیر معمولی بل ہیں جس کی وجہ سے ملک کے طول و عرض میں لوگ احتجاج کر رہے ہیں۔
پنجاب کے شہروں لاہور، گجرانوالہ، فیصل آباد، سرگودھا اور ملتان میں سینکڑوں لوگوں نے احتجاج کے دوران بجلی کے بل جلائے ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر صوبوں میں بھی صورت حال اس سے مختلف نہیں ہے۔
لاہور کی رہائشی قدسیہ جو لوگوں کے گھروں میں کام کر کے گزر بسر کرتی ہیں، اردو نیوز کو بتایا کہ ’’میرے گھر میں صرف ایک بلب اور ایک پنکھا ہے۔ مجھے 12 ہزار روپے بجلی کا بل آیا ہے۔ میری مالی حیثیت نہیں ہے کہ میں یہ بل ادا کر سکوں۔ اگر میرا بجلی کا میٹر اتار دیں گے تو مجھے پروا نہیں میں بل جمع نہیں کروا سکتی۔‘‘
گوجرانولہ کے ایک رہائشی محمد عطار نے بھی بتایا کہ ان کا بجلی کا بل 25 ہزار روپے آیا ہے۔ جبکہ ان کے مہینے کی آمدن 20ہزار روپے ہے۔ ’میری آمدن اٹھنی ہے اور مجھے کہا جا رہا ہے کہ میں ایک روپیہ بل جمع کرواؤں میرے لیے یہ ممکن نہیں اس مہینے میں بجلی کا بل جمع نہیں کروا رہا۔
لاہور ہی کے ایک اور رہائشی عبد الرؤف کو بھی اگست کے مہینے کا بل 32 ہزار روپے آیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’اس بجلی کے بل نے کمر توڑ دی ہے۔ میں لیسکو کے دفتر گیا تو انہوں نے بات ہی نہیں سنی۔ وہاں لائنیں لگی ہوئی ہیں۔ لوگ بل ہاتھوں میں لے کر کھڑے ہیں۔ اور کوئی سننے والا نہیں۔ بند گھروں کو بھی دس دس ہزار کا بل آیا ہے۔ میں نے جب عملے کو کہا کہ اس کی قسطیں کر دیں تو ان کا کہنا تھا کہ اس کی قسط نہیں ہو سکتی۔ اگر میں بل جمع کرواتا ہوں تو مہینہ نکالنے کے لیے کسی سی قرض لینا پڑے گا۔‘
پنجاب کے علاقے سیالکوٹ میں پولیس نے ایک مقدمہ درج کیا ہے جس میں ایک تاجر سے دو ڈاکوؤں نے ایک لاکھ 60 ہزار بندوق کے زور پر چھیننے کے بعد اسے بتایا کہ وہ پروفیشنل ڈکیت نہیں۔ بجلی کا بل جمع کروانے کے پیسے نہیں تھے اس لیے یہ کام کرنا پڑ رہا ہے۔ تاجر نے پولیس کو دی جانے والی درخواست میں ڈاکوؤں کا جملہ بھی لکھا جسے ایف آئی آر کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔

لاہور سمیت مختلف شہروں میں شہریوں نے زیادہ بل آنے پر احتجاج کیا۔ (فوٹو: سکرین گریب)

دوسری طرف پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف اس وقت قطر کے دو روزہ دورے پر ہیں انہوں نے قطر پہنچنے پر اعلان کیا ہے کہ اگلے مہینے کے بجلی کے بلوں میں ایڈجسٹمنٹ چارجز نہیں لیے جائیں گے۔ تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں کہ جو لوگ زائد بل جمع کروا چکے ہیں اور جن کے بل پرنٹ ہو کر آ گئے ہیں وہ اس اعلان سے کیسے استفادہ کریں گے۔
کراچی میں اردو نیوز کے نمائندے زین علی کے مطابق بجلی کے بلوں میں ٹیکسز میں اضافے پر عوام اور تاجروں کا شدید ردعمل دیکھنے میں آیا ہے۔
عوام کا کہنا ہے فیول ایڈجسٹمنٹ سمیت دیگر چارجز نا قابل قبول ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ بجلی کے بلوں پر عائد ٹیکس واپس لیے جائیں۔
دو روز قبل کراچی کے مختلف علاقوں میں اس کے خلاف احتجاج بھی کیا گیا ہے۔ امن و امان کی صورتحال خراب ہونے پر پولیس اور رینجرز نے عوام کو منتشر کرنے کے لیے شیلنگ اور لاٹھی چارج بھی کیا۔
کے الیکٹرک کے مختلف دفاتر میں سکیورٹی کے انتظامات بھی کیے گئے ہیں۔

رواں برس بھی شہری لوڈشیڈنگ کی شکایت کر رہے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

’بجلی کمپنیوں کو ریکوری میں مشکلات‘

لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی لیسکو کے ایک اعلٰی عہدیدار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز بتایا کہ کمپنی نے ہر مہینے بل کی ادائیگی نہ کرنے والوں کے میٹر کاٹنے کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔
’’ہزاروں کی تعداد میں ایسے کیسز سامنے آئے جنہوں نے اپنے بل جمع نہیں کروائے۔ تاہم ابھی تک ایسے کوئی احکامات نہیں جاری ہوئے کہ بل نہ دینے والوں کے میٹر کاٹے جائیں۔ بجلی کے بلوں میں ہوشربا اضافوں کے بعد کی صورت حال کا علم پالیسی سازوں کے پاس شاید نہیں تھا۔ اور بظاہر کچھ معلوم نہیں کہ یہ صورت حال کیسے کنٹرول ہو گی۔‘‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ بجلی کے زائد بلوں کی اصل وجہ کیا ہے؟ تو ان کا کہنا تھا ’’بہت فیکٹر ہیں سب سے بڑا تو یقیناً فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز ہیں۔ دوسرے نمبر پر یہ ڈیجیٹل میٹرز ہیں جو میرے خیال میں مائیکرو ریڈنگ کرتے ہیں جس سے زیادہ یونٹ صرف ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ ایک خالی موبائل فون چارجر کے استعمال میں آنے والی بجلی بھی ریڈنگ میں آتی ہے اور اس سے یونٹ گرتا ہے۔‘‘
تاہم لیسکو کے ترجمان میاں افضل کا کہنا ہے کہ لیسکو کی ریکوری روٹین کے مطابق ہو رہی ہے۔
’’اس وقت لوگوں کو بتانے کی ضرورت ہے کہ دنیا بھر میں ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اور لیسکو اپنی مرضی سے بجلی کے بل جاری نہیں کرتا یہ ایک سٹینڈرڈ طریقہ اور فارمولہ نیپرا کی طرف سے طے کیا جاتا ہے۔ بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں اس فارمولے کے تحت ہی بل جاری کرتی ہیں۔‘‘

شیئر: