Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’جائیں جی جوڈیشل ہوگیا ہے‘ شہباز گل کے خلاف مقدمے کی سماعت کا احوال

تقریبا دو گھنٹے تک جاری رہنے والی سماعت کے دوران کمرہ عدالت کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ (فوٹو: ٹوئٹر)
اسلام آباد کی مقامی عدالت نے تحریک انصاف کے رہنما شہباز گل کو مزید جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کرنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا ہے۔
اداروں کے خلاف بغاوت پر اکسانے کے الزام میں گرفتار پی ٹی آئی رہنما شہباز گل کو بدھ کے روز دو روزہ جسمانی ریمانڈ مکمل ہونے پر سخت سکیورٹی میں جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا گیا۔
ڈاکٹر شہباز گل کا دو روزہ جسمانی ریمانڈ مکمل ہونے کے بعد ان کی مقامی عدالت میں پیشی پر سب کی نظریں جمے ہوئے تھیں اور تمام میڈیا نمائندگان صبح 8 بجے سے ہی ضلعی کچہری میں موجود تھے۔
پولیس اہلکار بھی صبح سویرے لائن حاضر ہوچکے تھے اور شہباز گل کی عدالت میں گزشتہ پیشیوں کی طرح سخت سیکیورٹی انتظامات کیے گئے۔ 
طویل انتظار کے بعد تقریبا پونے 12 بج کر 36 منٹ پر عدالتی کارروائی کا آغاز ہوا۔ 
آٹھ فٹ چوڑے اور تقریبا 16 فٹ لمبے کمرہ عدالت میں صحافیوں، درجن بھر وکلا اور پولیس اہلکاروں کی موجودگی میں ڈاکٹر شہباز گل کو بمشکل کمرہ عدالت میں داخل ہونے کا راستہ ملا۔
سفید کپڑوں میں ملبوس شہباز گل گزشتہ سماعت کے برعکس ہشاش بشاش اور پر اعتماد نظر آرہے تھے۔ عدالت میں پیش ہوتے ہوئے ہاتھوں میں ہتھکڑی لگے شہباز گل اپنی مخصوص مسکراہٹ چہرے پر قائم رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے لیگل ٹیم سے ملاقات کی اور روسٹرم پر جاکر حاضری لگا کر اپنے وکلا کے عقب میں کھڑے ہوگئے۔ 
پولیس کی جانب سے سپیشل پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے دلائل کا آغاز کرتے ہی ملزم شہباز گل کو مزید 7 روز کے لیے جسمانی ریمانڈ پر دینے کی استدعا کی۔
رضوان عباسی نے اپنی استدعا کے حق میں دلائل اپناتے ہوئے کہا کہ ’ملزم سے تفتیش میں پیش رفت ہوئی ہے لیکن ابھی تفتیش مکمل نہیں ہوئی۔‘
انہوں نے عدالت کے سامنے بتایا کہ ’گزشتہ 48 گھنٹوں کے دوران شہباز گل کے گھر پولیس نے چھاپہ مارا جس میں پستول ایک موبائل فون، چار یو ایس بیز اور ایک ڈائری برآمد کی گئی ہے لیکن ملزم کے زیر استعمال متعدد موبائل فونز ہیں ابھی تک وہ موبائل برآمد نہیں ہوسکا جو شہباز گل زیادہ تر استعمال کرتے رہے ہیں۔‘ 

جوڈیشل مجسٹریٹ نےشہباز گل کو عدالت میں موجود کرسی پر بیٹھنے کا حکم دیتے ہوئے ان کی لیگل ٹیم کو ملاقات کی اجازت دی۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

شہباز گل کے وکیل فیصل چوہدری نے اپنے مخصوص انداز میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’اس ملک میں تین کروڑ سے زائد موبائل فون زیر استعمال ہیں، پولیس کونسا موبائل فون برآمد کروانا چاہتی ہے؟ اب یہ اپنی مرضی کا موبائل برآمد کرنا چاہتے ہیں، ہمیں بتایا جائے کہ آپ کو لال، پیلا، نیلا کونسا موبائل فون برآمد کروانا ہے؟‘ 
رضوان عباسی نے عدالت کو بتایا کہ ’پولیس کو ملزم کا پولی گرافک ٹیسٹ بھی کروانا ہے جس کی وجہ سے ملزم کا ریمانڈ درکار ہے۔ پولی گرافک ٹیسٹ اسلام آباد میں ہوگا یا اس کے لیے ملزم کو لاہور لے کر جانا ہے، لیبز میں سہولیات دیکھ کر یہ طے کیا جائے گا۔‘
شہباز گل کے وکیل فیصل چوہدری نے کہا کہ ’پراسیکیوشن کی جانب سے جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے ہونے والی گزشتہ سماعت پر بھی انہیں بنیادوں پر 8 روز کی جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی تھی جو مسترد ہو گئی تھی اور بعدازاں نظر ثانی درخواست میں ایڈشنل سیشن جج نے جسمانی ریمانڈ پر بھیجا۔‘
دوران سماعت فیصل چوہدری نے عدالت کو ایک بار پھر شہباز گل پر ہونے والے مبینہ تشدد کو بنیاد بنایا اور اسلام آباد ہائی کورٹ کا اس سے متعلق تفصیلی فیصلے پڑھ کر کہا کہ ’اسلام آباد ہائی کورٹ کے تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ نہ صرف ملزم پر تشدد ہوا بلکہ اڈیالہ جیل حکام نے تشدد کو چھپایا بھی۔‘
شہباز گل پر ہونے والے مبینہ تشدد سے متعلق ہائی کورٹ کے حکمنامے پر دلائل کے دوران شہباز گل کے معاون وکیل شعیب شاہین اور پرایسیکوٹر کے درمیان گرما گرمی بھی ہوئی۔ پراسیکیوٹر نے دلائل دیے کہ تشدد ثابت ہونا ابھی باقی ہے، جوڈیشل انکوائری کے حکم کی وجہ سے تفتیش کو نہیں روکا جاسکتا جس پر شعیب شاہین نے انہیں ٹوکنے کی کوشش کی تو رضوان عباسی نے کہا کہ آپ میری بات مکمل ہونے دیں۔ جس پر شعیب شاہین نے جذباتی انداز میں کہا کہ ’اونچی آواز میں دلائل دینے سے آپ درست ثابت نہیں ہوجائیں گے۔‘
جوڈشیل مجسٹریٹ ملک امان نے دونوں وکلا کو تحمل برتنے کا کہتے ہوئے پراسیکیوٹر کو دلائل مکمل کرنے کی اجازت دی۔ 
تقریبا دو گھنٹے تک جاری رہنے والی سماعت کے دوران کمرہ عدالت کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ حبس اور گرمی میں سانس لینا بھی محال تھا اس کے باوجود کچھ لوگ شہباز گل کے قریب جانے کی کوشش کرتے رہے اور جن میں سے کئی لوگوں کو کامیابی بھی ملی۔

پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے عدالت کو بتایا کہ پولیس کو ملزم کا پولی گرافک ٹیسٹ بھی کروانا ہے۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

کمرہ عدالت کے باہر بھی لوگوں کا تانتا بندھا ہوا تھا اور ہر کسی کی کوشش تھی کہ وہ عدالت میں پہنچ سکے اور پولیس سے تکرار کرتے رہے۔
عدالتی کارروائی مکمل ہونے پر پولیس ڈاکٹر شہباز گل کو واپس لے کر جانے لگی تو فیصل چوہدری نے جوڈیشل مجسٹریٹ سے درخواست کی ’سر ان کو اتنی جلدی ہے ہم سے ملنے بھی نہیں دیا جاتا۔‘
جوڈیشل مجسٹریٹ نےشہباز گل کو عدالت میں موجود کرسی پر بیٹھنے کا حکم دیتے ہوئے ان کی لیگل ٹیم کو ملاقات کی اجازت دی۔ اسی دوران جوڈیشل مجسٹریٹ نے فیصلہ لکھوانا شروع کردیا۔ شہباز گل بظاہر لیگل ٹیم سے ملاقات کر رہے تھے لیکن ان کی نظریں روسٹرم کے بالکل سامنے کھڑے صحافیوں اور وکلا پر تھی جو فیصلے کا انتظار کر رہے تھے۔
فیصلے آنے میں کچھ تاخیر ہوئی تو پولیس کا عملہ کمرہ عدالت میں آیا اور شہباز گل کو ان کے ساتھ جانے کی درخواست کی۔ جیسے ہی شہباز گل کمرہ عدالت کے دروازے پر پہنچے تو جوڈیشل مجسٹریٹ نے فیصلے کے انتظار کے لیے اپنے سامنے کھڑے وکلا کو کہا ’جائیں جی جوڈیشل ہوگیا ہے۔‘
فیصلے کے بعد ہتھکڑیاں لگے شہباز گل سیڑھیوں سے اتر کر نیچے آئے تو صحافیوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہوگیا تھا۔ انہوں نے کیمرے کی طرف دیکھتے ہوئے کسی بالی ووڈ فلم کے سیاستدانوں کی طرح دونوں ہاتھ جوڑ کر شکریہ ادا کرتے ہوئے اینکر پرسن جمیل فاروقی کے لیے آواز اٹھانے کی درخواست کی اور جذباتی جملے بول کر گاڑی میں بیٹھ کر جیل روانہ ہوگئے۔

شیئر: