Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سال 2010 یا 2022، کس سیلاب نے کتنی زیادہ تباہی مچائی؟

’میری عمر 86 برس ہو گئی ہے میں نے اپنی زندگی میں اتنا پانی کبھی نہیں دیکھا۔ یہ سیلاب نہیں تھا اور نہ بارش کا پانی کا تھا۔ یہ آفت تھی یا عذاب تھا جو ہم پر آیا ورنہ سیلاب کا پانی دوسری یا تیسری منزل تک کب جاتا ہے؟‘  
سنہ 2010 کے سیلاب کے وقت یہ بات نوشہرہ کے ایک گاؤں کے بزرگ نے نئی بنی ہوئی کوٹھی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس وقت کہی تھی جب راقم وہاں سیلاب کی کوریج کے لیے موجود تھا۔
اس کوٹھی کی دیواروں پر دو منزلیں پانی میں ڈوبے رہنے کے نشانات موجود تھے۔  
بزرگ کا کہنا تھا کہ دریائے کابل سے پانی آہستہ آہستہ بلند نہیں ہوا تھا بلکہ اس تیزی اور اونچائی کے ساتھ اوپر آیا کہ کسی کو سنبھلنے کا موقع بھی نہیں ملا تھا۔  
بعد ازاں اس سیلاب کو پاکستانی اداروں کی جانب سے ’سپر فلڈ‘ جبکہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے ’آہستگی سے سونامی میں تبدیل ہونے ہونے والا سیلاب‘ قرار دیا تھا۔  
بارہ سال بعد 2022 میں اب ایک بار پھر ملک کے بیشتر حصوں میں سیلابی صورت حال ہے۔ صوبہ سندھ، بلوچستان، خیبرپختونخوا اور جنوبی پنجاب کے کئی اضلاع میں سیلابی ریلوں نے تباہی مچا دی ہے۔ وہی دہائیاں ایک بار پھر سننے کو مل رہی ہیں جو 2010 میں تھیں۔  
سنہ 2010 میں آنے والے سیلاب نے بھی تباہی مچائی اور گزر گیا لیکن اس مرتبہ سیلابی ریلے جو تباہی مچا رہے ہیں یہ سلسلہ 2 ماہ سے زائد سے جاری ہے۔ لوگ اجڑتے ہیں اور پھر خود ہی بحالی کی کوشش کرنے لگ جاتے ہیں کہ نیا سیلابی ریلا ان کی پہلے سے ٹوٹی کمر مزید توڑ جاتا ہے۔
2010 کے سیلاب میں ملک کے 78 جبکہ  2022 میں 116 اضلاع متاثر ہوئے ہیں لیکن 2010 میں دو کروڑ کی آبادی جبکہ 2022 میں اب تک 31 لاکھ سے زائد کی آبادی متاثر ہوئی ہے جس میں 2 لاکھ 26 ہزار صرف سندھ میں متاثر ہوئے ہیں۔

2010 میں آنے والے سیلاب کو پاکستانی اداروں نے ’سپر فلڈ‘ قرار دیا تھا۔ فوٹو: اے ایف پی

مسلسل ہونے والی بارشوں سے لاکھوں مکانات متاثر ہوئے جس وجہ سے لوگ کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور ہیں۔ 
صوبہ سندھ کی حکومت 22 اضلاع کو آفت زدہ قرار دے کر یہ کہہ چکی ہے کہ صورت حال 2010 سے بھی زیادہ خراب ہو سکتی ہے جبکہ دیگر صوبوں بالخصوص بلوچستان میں بھی غذائی قلت کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔  
2010 اور 2022 کے سیلاب میں کیا فرق ہے؟  
2010 میں بھی محکمہ موسمیات اور این ڈی ایم کا کہنا تھا کہ معمول سے زیادہ مون سون بارشوں کے باعث سیلابی صورت حال بنی لیکن بعد ازاں بتایا گیا کہ کلاؤڈ برسٹ کی وجہ سے دریاؤں میں پانی کی سطح اچانک بلند ہوئی اور پانی تمام تر حفاظتی بند اور پشتوں سے بلند ہو کر دیہاتوں اور شہروں میں داخل ہو گیا۔ اس سے نہ صرف جانی نقصان ہوا بلکہ بڑے پیمانے پر مالی نقصانات بھی ہوئے جس کا تخمینہ 10 ارب ڈالر سے بھی زائد لگایا گیا۔  
محکمہ موسمیات کے مطابق 2010 کا سیلاب ’دریائی سیلاب‘ تھا جبکہ رواں مون سون میں آنے والے سیلاب کو ’فلیش فلڈ‘ کہا جاتا ہے۔  
ماہر موسمیات راشد بلال نے اردو نیوز سے گفتگو میں بتایا کہ 2010 میں آنے والے سیلاب کی بڑی وجہ دریائے کابل کے اوپر ہونے والی بہت زیادہ غیرمتوقع بارشیں تھیں۔ جب پانی دریائے سندھ میں پہنچا جہاں پہلے سے وافر مقدار میں پانی موجود تھا تو دریاؤں سے پانی باہر نکلنا شروع ہو گیا اور پھیلتا چلا گیا۔

رواں سال آنے والے سیلابوں کی وجہ فلیش فلڈنگ قرار دی گئی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

دریائی سیلاب یا فلیش فلڈ
ان کے مطابق موجودہ سیلاب درائی سیلاب نہیں بلکہ یہ فلیش فلڈ کہلاتا ہے کہ مسلسل دو ماہ سے ہونے والے بارشوں کے باعث زمین کے اندر مزید پانی جذب کرنے کی صلاحیت یا گنجائش موجود نہیں رہی۔ یہی وجہ ہے کہ جوں جوں بارشیں ہو رہی ہیں تو پانی سیلابی ریلوں کی شکل اختیار کرتا جاتا ہے۔
اس سے وہ علاقے جو پہاڑیوں کے قریب ہیں جس طرح جنوبی پنجاب، بلوچستان، چترال اور سوات شدید متاثر ہوئے جبکہ سندھ کے بیشتر اضلاع میں سیلابی ریلے نہیں آئے بلکہ بارشوں کا پانی ہی اتنا زیادہ ہے کہ اسے کہیں جانے کا راستہ ہی نہیں مل رہا اور وہ شہروں اور دیہات میں مسلسل جمع ہو رہا ہے جس سے انسانی جانوں کے ضیاع کے ساتھ مکانات، جانور اور فصلیں تباہ ہو رہی ہیں۔  
این ڈی ایم اے کے مطابق 2010 کا سیلاب اتنا غیر متوقع تھا کہ کسی قسم کی تیاری کا موقع نہیں ملا تھا تاہم بڑے پیمانے پر ریسکیو اور ریلیف سرگرمیاں شروع کرتے ہوئے نقصانات کو کم کرنے کی ایک کوشش ضرور ہوئی تھی۔ بعد ازاں لوگوں کو بحالی میں بھی مدد دی گئی۔  
تاہم موجودہ سیلاب کے حوالے سے این ڈی ایم کا دعویٰ ہے کہ صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز کے ذریعے تمام متعلقہ اداروں اور حکومتوں کو بر وقت آگاہی دی گئی تھی۔ اس کے باوجود بارشیں اتنی زیادہ ہوئی ہیں کہ بعض علاقوں میں سیلابی ریلے اس شدت سے آئے کہ مکانات، مویشیوں اور انسانوں کو بہا کر لے گئے ہیں۔  
نقصانات کا تخمینہ 
نیشنل ڈیزاسٹر میجمنٹ اتھارٹی کا کہنا ہے کہ 2010 کے سیلاب میں نقصانات کا تخمینہ 10 ارب ڈالر لگایا گیا تھا جس میں زرعی اجناس اور اگلے دو سال تک زرعی پیداروار میں کمی کو شامل کر دیا جائے تو 12 ارب ڈالر بن جاتا ہے۔
رواں سیلاب کے باعث ہونے والے سیلاب کی تباہ کاریوں کا ڈیٹا تو مرتب کیا جا رہا ہے لیکن ان کا تخمینہ سیلابی صورت حال ختم ہونے اور لوگوں کو ان کے گھروں میں دوبارہ آباد کرنے کے بعد ہی لگایا جا سکے گا۔  

2010 کے سیلاب میں نقصانات کا تخمینہ 10 ارب ڈالر لگایا گیا تھا۔ فوٹو: اے ایف پی

این ڈی ایم اے کے مطابق 14 جون 2022 سے لے کر اب تک ملک بھر میں بارشوں اور سیلاب سے ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 900 سے تجاوز کر چکی ہے جن میں 386 مرد، 191 عورتیں اور 326 بچے شامل ہیں۔ اس دوران زخمی ہونے والے افراد کی تعداد 1293 ہے۔ 
سب سے زیادہ ہلاکتیں سندھ میں 115 بلوچستان میں 110 خیبر پختونخوا میں 84اور پنجاب میں 50 ہلاکتیں ہوئی ہیں۔  
چار لاکھ 95 ہزار سے زائد گھر متاثر ہوئے یں جن میں سے دو لاکھ کے قریب  مکمل تباہ ہو چکے ہیں۔ تین ہزار کلومیٹر سے زائد سڑکوں، 130 پلوں اور 700 دکانوں کو نقصان پہنچا ہے جبکہ سات لاکھ سے زائد جانور ہلاک ہو گئے ہیں۔ 
این ڈی ایم اے کے مطابق ملک کے 116 اضلاع، 31 لاکھ کی آبادی متاثر ہوئی جن میں سے ایک لاکھ 84 ہزار خیموں میں پناہ گزین ہوئے ہیں۔ 
اس کے برعکس 2010 کے سیلاب میں پاکستان کے 78 اضلاع کی دو کروڑ سے زائد آبادی متاثر ہوئی۔ 1945 افراد ہلاک، تین ہزار کے قریب زخمی ہوئے جبکہ 18 لاکھ سے زائد گھروں کو نقصان پہنچا تھا۔  

شیئر: