Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

روپے کی قدر میں گراوٹ، پاکستان میں ڈالر کی قیمت کنٹرول کیوں نہیں ہو رہی؟

عالمی مالیاتی ادارے سے قرض کی قسط ملنے کے بعد بھی پاکستانی روپے پر دباؤ دیکھا جا رہا ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
پاکستان میں حکومت کی جانب سے لگژری مصنوعات کی درآمد پر عائد پابندی کے خاتمے اور ڈالر کی افغانستان سمگلنگ کے اثرات ایک پھر روپے کو متاثر کرنے لگے ہیں۔
عالمی مالیاتی ادارے سے قرض کی قسط ملنے اور دوست ممالک کے تعاون کے باوجود رواں ہفتے پاکستانی روپے پر دباؤ دیکھا جا رہا ہے۔
گزشتہ تین روز کے دوران روپے کی قدر میں بہتری کے بعد مسلسل گراوٹ کا رجحان رہا اور ہفتے کے اختتام پر انٹر بینک میں ڈالر کی قیمت ایک بار پھر 219 روپے کی سطح پر پہنچ گئی۔ 
معاشی ماہرین روپے کی قدر میں کمی کی اہم وجہ امپورٹ بل کا بڑھنا بتا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کے علاوہ ملک میں موجودہ سیلابی صورتحال کی وجہ سے بھی حکومت کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے جن میں ڈالر کی سمگلنگ اور حوالہ ہنڈی کا بڑھتا رجحان ہے۔  
فاریکس ڈیلرز کے مطابق رواں ہفتے کے آغاز پر روپے کی قدر میں بہتری کا سلسلہ رپورٹ ہوا تھا تاہم یہ سلسلہ تین روز جاری رہنے کے بعد ایک بار پھر رک گیا۔
ایک امریکی ڈالر کی قیمت انٹر بینک میں 217 روپے کی سطح پر رپورٹ ہونے کے بعد جمعے کو دوران کاروبار ایک بار پھر سے 219 روپے 50 پیسے کی سطح پر آ گیا ہے۔ 
عالمی مالیاتی ادارے کی جانب سے قسط کی ادائیگی کے بعد امید ظاہر کی جا رہی تھی کہ روپے کی قدر میں نمایاں بہتری ہوگی لیکن مارکیٹ کی صورتحال بلکل مختلف ہے۔ روپے پر اس وقت بھی دباؤ ہے اور مارکیٹ میں ملا جلا رجحان دیکھا جا رہا ہے۔  
روپے کی قدر میں گراوٹ کا ذمہ دار کون ہے؟  
فاریکس ڈیلرز ڈالر کی قیمت میں اضافے کا ذمہ دار بینکوں کو ٹھہراتے ہیں، بینک امپورٹرز کو الزام دیتے اور امپورٹر سٹیٹ بینک آف پاکستان پر اس کی ذمہ داری ڈالتے ہیں۔  
ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکرٹری ظفر پراچہ کا کہنا ہے کہ ڈالرز کی قدر میں کمی اور اضافے کا اختیار منی ایکسچینجرز کے پاس  نہیں ہوتا۔  
’ہم ایک محدود وسائل سے کرنسی کا کاروبار کرتے ہیں، ہمارے پاس اتنے ڈالرز نہیں ہوتے کہ ڈالر کی قیمت میں کمی یا اضافہ کر سکیں۔‘ 
انہوں نے کہا کہ نجی بینکوں کے پاس ڈالرز زیادہ ہوتے ہیں، وہ امپورٹرز کو مسلسل اس بات پر قائل کرتے ہیں کہ زیادہ ڈالر خریدے جائیں۔ نجی بینک ڈالر کی قیمت بڑھانے یا کم کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔  

معاشی امور کے ماہر سمیع اللہ طارق کے مطابق روپے کی قدر میں کمی کی اہم وجہ درآمدات میں اضافہ ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

ایک نجی بینک کے مینیجر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ڈالر کی قیمت میں اتار چڑھاؤ میں منی ایکسچینجز کا اہم کردار ہے۔ مارکیٹ میں ڈالر کی طلب و رسد کو متاثر کرکے روپے کے مقابلے میں ڈالر سمیت دیگر کرنسیوں کے ریٹ بڑھائے جاتے ہیں۔  
انہوں نے کہا کہ حال ہی میں متحدہ عرب امارات کی نئی انٹری پالیسی کو جواز بنا کر مارکیٹ سے درہم، ریال اور ڈالر کی شارٹیج کی گئی اور ریٹ بڑھائے گئے ہیں۔  
’بینکوں کو ایل سی کی ادائیگیوں سمیت دیگر مد میں ڈالرز کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن یہ ساری چیزیں سٹیٹ بینک کی پالیسی کے حساب سے چلتی ہیں اور کسی بینک کے پاس یہ اختیار نہیں ہوتا کہ روپے کی قدر کو متاثر کر سکے۔‘ 
پاکستان میں چینی ساختہ موبائل فون بنانے والی کمپنی آئیکون کے سربراہ عبد الوہاب نے امپورٹرز کے ڈالر پر اثر انداز ہونے کے الزام کو مسترد کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ڈالر مہنگا ہونے کا امپورٹر کو نقصان ہے۔ ’ہمیں ایل سی کھولنے کے لیے ڈالر میں رقم ادا کرنا ہوتی ہے، اگر ملک میں روپے کی قدر کم ہوگی تو ہمیں زیادہ پیسے ادا کرنے پڑیں گے۔‘  
انہوں نے مزید کہا کہ امپورٹ کے اصول و قواعد سٹیٹ بینک سمیت دیگر متعلقہ اداروں کے بنائے گئے قوانین کے مطابق ہوتے ہیں، ہم ایڈوانس ادائیگی کے بعد خام مال درآمد کرتے ہیں۔  
سٹیٹ بینک آف پاکستان کے ذمہ داران ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے اور مرکزی بینک کے گورنر کی تعیناتی کے باوجود روپے کی قدر میں کمی وجوہات بتانے سے گریز کر رہے ہیں۔ اس ضمن میں ترجمان سٹیٹ بینک عابد قمر سے متعدد بار رابطہ کرنے کے باوجود انہوں نے اس پر بات کرنے سے گریز کیا ہے۔  

ترجمان سٹیٹ بینک عابد قمر سے متعدد بار رابطہ کرنے کے باوجود انہوں نے معاملے پر بات کرنے سے گریز کیا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

ظفر پراچہ کا کہنا تھا کہ سٹیٹ بینک سمیت متعلقہ اداروں کو چاہیے کہ موجودہ صورتحال میں روپے کی قدر میں گراوٹ کی تمام وجوہات پر گہری نظر رکھیں۔ 
انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت ملک میں حوالہ ہنڈی کا کام ایک بار پھر تیز ہوگیا ہے۔ پاکستان سے افغانستان ڈالر کی سمگلنگ اگر نہ روکی گئی تو آنے والے دنوں میں صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے۔  
معاشی امور کے ماہر سمیع اللہ طارق کے مطابق روپے کی قدر میں کمی کی اہم وجہ درآمدات میں اضافہ ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کو معیشت کی بہتری کے لیے ایکسپورٹ بڑھانا ہوگی۔ ملک میں پیداواری لاگت کم ہوگی تو صنتعیں چلیں گی اس سے ملک میں روزگار بھی آئے گا اور برآمدات بھی بڑھیں گی۔

شیئر: