Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کوئٹہ: سول ہسپتال میں نرسوں کی ہڑتال، کمسن بچی ہلاک

چلڈرن وارڈ کے آر ایم او ڈاکٹر اورنگزیب کے مطابق ہسپتال میں انکیوبیٹر اور مشینری ہیں تاہم عملہ کم ہے۔ (فوٹو: اردو نیوز)
بلوچستان کے ضلع قلعہ عبداللہ کے ایک رہائشی نے الزام لگایا ہے کہ کوئٹہ کے سب سے بڑے سرکاری ہسپتال میں ڈاکٹر اور نرسوں کے درمیان جھگڑے کی وجہ سے ان کی نومولود بیٹی کی موت واقع ہوئی ہے جس کے بعد ایم ایس نے متعلقہ ڈاکٹر اور سٹاف نرس کو معطل کر دیا ہے۔
یہ واقعہ ایک روز قبل اس وقت پیش آیا جب نرسوں کی تنظیم بلوچستان ینگ نرسز ایسوسی ایشن نے سول ہسپتال کے شعبہ اطفال کی ایک نرس کو ڈاکٹر کی جانب سے ہراساں کرنے اور تشدد کا نشانہ بنانے کے خلاف ہڑتال کر رکھی تھی۔
متاثرہ بچی کے والد ظہور احمد نے بتایا کہ تنظیم کے اہلکاروں نے نرسوں پر دباؤ ڈال کر انہیں ڈیوٹی دینے سے منع کیا اور انہیں وارڈ سے باہر لے گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’میری بیٹی کو دل کی بیماری تھی اور 25 اگست سے وارڈ میں داخل تھی اس سے پہلے ان کی اچھی دیکھ بھال ہو رہی تھی اور اس کی حالت بھی بہتر ہو رہی تھی لیکن ہڑتال کے باعث پیر کی دوپہر کو جب وہ اپنی بچی کو دیکھنے نرسری میں پہنچے تو انہیں مردہ پایا۔‘
ظہور احمد نے کہا کہ انتہائی نگہداشت یونٹ ہونے کی وجہ سے وہاں 24 گھنٹے کسی اسٹاف کا موجود ہونا ضروری ہوتا ہے لیکن وہاں کوئی ڈاکٹر اور نہ ہی نرسنگ سٹاف موجود تھا۔
قبل ازیں ہسپتال انتظامیہ کا کہنا تھا کہ بچی کی حالت پہلے سے ہی خراب تھی۔
سول ہسپتال کے ڈپٹی میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر نسیم کٹکے زئی کا کہنا ہے کہ بچی کے دل میں دو سوراخ تھے اور اس کی حالت پہلے سے ہی خراب تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’بچی گزشتہ اٹھارہ انیس دنوں سے داخل تھی اس کی دیکھ بھال پر روزانہ 30 ہزار روپے سے زائد خرچ آ رہا تھا جسے ہسپتال برداشت کر رہا تھا۔‘
انہوں نے کہا کہ بچے کے علاج میں غفلت یا ڈیوٹی پر ڈاکٹرز کے موجود نہ ہونے کا الزام غلط ہے۔
وزیراعلٰی بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے ابتدائی رپورٹ طلب کر لی ہے۔
انہوں نے سیکریٹری صحت کو واقعے کی انکوائری کر کے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔

ظہور احمد نے کہا کہ انتہائی نگہداشت وارڈ میں نہ کوئی ڈاکٹر اور نہ ہی نرسنگ سٹاف موجود تھا۔ (فوٹو: سکرین گریب)

ینگ نرسز ایسوسی ایشن کے صوبائی صدر عزیز کاکڑ نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’چلڈرن آئی سی یو میں تعینات ایک نرس کو اسی وارڈ کے ایک میل ڈاکٹر نے ہراساں کیا اوراسے تھپڑ مارے اور تشدد کا نشانہ بنایا لیکن اس پر کسی نے کوئی کارروائی نہیں کی جس پر نرسز نے احتجاجی ریلی بھی نکالی اور وارڈز میں ڈیوٹیوں سے بائیکاٹ کیا لیکن ایمرجنسی وارڈز میں نرسنگ سٹاف موجود تھا۔‘
عزیز کاکڑ نے بتایا کہ ڈاکٹروں کی تنظیم نے ان سے رابطہ کیا اور آپس میں بیٹھ کر معاملہ حل کر لیا ہے اب احتجاج ختم ہو گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’متعلقہ ڈاکٹر کے خلاف تحقیقات کا حکم دے دیا گیا ہے، جس پر ہم مطمئن ہیں۔‘

عزیز کاکڑ کا کہنا ہے کہ ہسپتال میں مریض زیادہ ہونے کی وجہ سے نرسز پر کام کا دباؤ ہوتا ہے۔ (فوٹو: سول ہسپتال)

نرسنگ سٹاف کی کمی

سول ہسپتال کے چلڈر ن وارڈ میں داخل مریضوں کے تیمار داروں نے پیرا میڈیکس اور نرسنگ سٹاف کی کمی کی شکایت کی اور کہا کہ ہڑتال کے علاوہ عام دنوں میں بھی ان کے مریضوں کو ادویات وقت پر نہیں دی جاتیں کیونکہ مریض بہت زیادہ ہیں اور نرسنگ سٹاف بہت کم۔
چلڈرن وارڈ کے آر ایم او ڈاکٹر اورنگزیب نے بھی  کہا کہ ہمارے ہسپتال میں اضافی انکیوبیٹر اور مشینری موجود ہیں لیکن عملے کی کمی کی وجہ سے ہم انہیں ہسپتال میں نہیں لاسکتے۔
نرسز ایسوسی ایشن کے صدر عزیز کاکڑ کا کہنا ہے کہ 120 سے 130 بستروں پر مشتمل اس وارڈ میں صرف 11 نرسسز تعینات ہیں جن میں سے کچھ چھٹیوں پر ہیں اور باقی چھ سات نرسز تین شفٹوں میں کام کرتی ہیں۔ مریض زیادہ ہونے کی وجہ سے ان پر کام کا دباؤ ہوتا ہے۔

شیئر: