Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کوئٹہ میں منشیات فروشوں کا ’راج‘ کئی برس بعد کیسے ختم ہوا؟

گورنر، وزیراعلیٰ اور آئی جی کے دفتر سے چند سو قدم کی دوری پر واقع کوئٹہ سٹی نالہ نشے کے عادی افراد، منشیات فروشوں اور دیگر سنگین جرائم میں مطلوب ملزمان کی آماج گاہ تھا۔ یہاں پولیس کو ماضی میں کی گئی کارروائیوں میں اکثر ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
بدھ کو کوئٹہ پولیس نے شہر کے وسط میں واقع نالے میں بڑے پیمانے پر کیے گئے آپریشن میں سرغنہ سمیت آٹھ منشیات فروشوں کو ہلاک کر دیا جس سے کئی سالوں بعد منشیات فروشوں کا قائم 'راج 'ختم ہو گیا ہے۔
پولیس کے مطابق بدھ کی صبح پانچ بجے شروع ہونے والی کارروائی تین گھنٹے سے زائد تک جاری رہی جس میں دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے تیار کی گئی اور پولیس کی خصوصی فورس سی ٹی ڈی (کاؤنٹر ٹیررزم ڈیپارٹمنٹ) کی مدد بھی لی گئی۔
خیال رہے کہ شہر کے بیچوں بیچ گزرنے والا یہ نالہ برطانوی دور میں برساتی پانی کی نکاسی کے لیے تعمیر کیا گیا تھا۔ کئی کلومیٹر طویل اس نالے کو حبیب نالہ بھی کہا جاتا ہے۔
یہ شہر کے ریڈ زون سے بھی گزرتا ہے اور یہاں سے گورنر، وزیراعلیٰ ہاؤس، صوبائی اسمبلی سمیت اہم سرکاری عمارتیں چند سو فٹ کی دوری پر ہیں۔
گزشتہ چند دہائیوں سے سٹی نالہ منشیات کے عادی افراد اور منشیات فروشوں کا گڑھ بن گیا ہے۔ منشیات فروشی، چوری، ڈکیتی اور قتل سمیت سنگین جرائم میں ملوث افراد نے بھی اسے ٹھکانہ بنا رکھا ہے جس کی وجہ سے شہر کے حساس علاقے میں واقع اس علاقے کو ’نو گو ایریا‘ اور پولیس اور انتظامیہ کی عمل داری سے باہر سمجھا جاتا ہے۔
کوئٹہ پولیس کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ ’اس بڑے نالے کے اندر میزان چوک اور لیاقت پارک سمیت مختلف مقامات پر چھوٹے نالے نکلتے ہیں جہاں سے شہر کا گندہ پانی آتا ہے۔ جب بھی پولیس نالے کے اندر اترتی تھی تو ملزمان فائرنگ کرکے ان نالوں کے اندر سے فرار ہوجاتے تھے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’گینگ کا سرغنہ زیادہ تر نالے میں ہی رہتا تھا اور اس نے مختلف داخلی راستوں پر مورچے بنا کر مسلح لوگ بٹھا رکھے تھے جو 24 گھنٹے پہرہ دیتے تھے۔‘

پولیس آپریشن میں گینگ سرغنہ سمیت آٹھ منشیات فروشوں کو ہلاک کیا گیا۔ فوٹو: سی ٹی ڈی

کوئٹہ پولیس کے افسر کے مطابق منشیات کے عادی افراد کے بھیس میں بھی ان کے مخبر نالے کے اوپر جناح روڈ، عدالت روڈ، میزان چوک سمیت مختلف علاقوں میں ہمیشہ موجود ہوتے تھے جو پولیس کی نقل و حرکت کی اطلاع گینگ کو دیتے تھے۔ اس طرح وہ پولیس کے پہنچنے سے پہلے ہی تیار ہوتے اور فائرنگ کرتے ہوئے فرار ہو جاتے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ پولیس نے چار سے پانچ مختلف مقامات پر سنائپرز بٹھا کر اور مختلف اطراف سے نالے کے اندر اچانک داخل ہو کر ملزمان کو فرار ہونے سے پہلے ہی گھیرے میں لے لیا۔
ڈی آئی جی کوئٹہ غلام اظفر کے مطابق ’منشیات فروشوں کے پاس جدید اسلحہ تھا جسے انہوں نے ڈرانے دھمکانے کے لیے نہیں بلکہ چلانے کے لیے رکھا تھا۔ پولیس نے اس بار باقاعدہ حکمت عملی کے ساتھ تربیت یافتہ اہلکاروں کے ساتھ کارروائی کی اور کامیاب رہی۔‘
نالے میں گزشتہ ایک دہائی سے رہنے والے منشیات کے عادی ایک شخص نے بتایا کہ ’پولیس کارروائی میں مارا گیا منشیات فروشوں کاسرغنہ آصف عرف صفو انتہائی سفاک اور ظالم شخص تھا۔ وہ پہلے شہر کے جناح روڈ اور پرنس روڈ پر چھوٹے پیمانے پر منشیات فروخت کرتا تھا پھر اس نے نالے کے اندر آکر یہی کام شروع کیا اور گزشتہ کئی سالوں سے اس نے نالے کے اندر باقاعدہ اپنا راج قائم کر رکھا تھا۔‘
ان کے بقول صفو چرس، ہیروئن، آئس سمیت ہر قسم کی منشیات فروخت کرتا تھا۔ وہ نشے کے عادی افراد سے چوری کرواتا تھا انہیں اسلحہ دیتا تھا، اگر کوئی ان کی بات نہیں مانتا تھا تو اسے قتل کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا تھا۔
نشے کے عادی شخص نے بتایا کہ ملزم صفو نے بہت سے نشے کے عادی افراد کو بوری میں بند کر کے اور گندے پانی میں پھینک کر مارا۔ نشے کے عادی افراد سالوں گھر سے دور رہتے ہیں اس لیے کسی کو ان کی خبر ہی نہیں ہوتی۔
انہوں نے مزید کہا کہ کچھ عرصہ سے ملزم صفو اور اس کے مسلح ساتھیوں نے نالے کے داخلے کے راستے پر ایک مورچہ بنا رکھا تھا اور ہر آنے والے نشے کے عادی شخص کو پیسہ لے کر اندر آنے دیتا تھا ۔ پیسہ نہ ہونے کی وجہ سے نشے کے عادی افراد کی بڑی تعداد شہر کی سڑکوں، چوک و چوراہوں اور فٹ پاتھوں پر رہنے پر مجبور تھے۔

گینگ سرغنہ آصف منشیات فروشوں کی مطلوب فہرست میں پہلے نمبر پر تھا۔ فوٹو: سی ٹی ڈی

ڈی آئی جی کوئٹہ غلام اظفر مہیسر کا کہنا تھا کہ منشیات فروشوں کا گینگ خاص طور پر سکول، کالج اور یونیورسٹی کے لڑکے لڑکوں کو ہدف بناکر انہیں اس گندے دھندے میں شامل کرتے ہیں کسی کو منشیات کا عادی تو کسی کو منشیات فروش بنا دیتے ہیں، عوام اس جنگ میں ہمارا ساتھ دیں۔
'ہم نے پہلا قدم اٹھایا ہے اس ناسور کو اتنا جلدی ختم نہیں کیا جاسکتا، ہم دیگر محکموں اور عوام کے ساتھ ملکر منشیات فروشوں کے خلاف وسیع البنیاد کارروائیاں جاری رکھیں گے۔'
ڈی آئی جی کے مطابق یہ نالہ پانچ تھانوں کی حدود سے گزرتا ہے، منشیات کے عادی افراد اور منشیات فروشوں کا دوبارہ گڑھ بننے سے محفوظ رکھنے کے لئے نالے کے اندر اور داخلی راستوں پر پولیس چوکیاں قائم کی جائیں گی جن پر چوبیس گھنٹے پولیس اہلکار تعینات رہیں گے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ سی ٹی ڈی نے گزشتہ ماہ بھی کوئٹہ میں منشیات کے کاروبار میں ملوث ایک  ملزم کو فائرنگ کے مبینہ تبادلے میں ہلاک کردیا تھا۔سی ٹی ڈی  حکام کا دعویٰ ہے کہ ہلاک ملزم عنایت غبیزئی کالعدم دہشتگرد تنظیم داعش کی مالی معاونت میں ملوث تھاتاہم ان کے خاندان نے اس الزام کو مسترد کیا ہے۔
سی ٹی ڈی حکام کا کہنا ہے کہ بھتہ خوری اور منشیات فروشی ’ٹیررفنانسنگ‘ یعنی دہشت گردوں کی مالی معاونت کا بڑا ذریعہ ہے۔ نالے کے اندر منشیات فروشی سے دہشت گرد تنظیموں کی مالی معاونت اور منی لانڈرنگ کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔
’آپریشن منشیات فروشوں کے گینگ کی موجودگی کی خفیہ اطلاع پر کیا گیا‘
ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس کوئٹہ غلام اظفر مہیسر کے مطابق پولیس نے سی ٹی ڈی کے ساتھ مل کر یہ آپریشن منشیات فروشوں کے گینگ کی موجودگی کی خفیہ اطلاع پر کیا

کوئٹہ میں منشیات فروشوں کے خلاف ہونے والے پچھلے آپریشن ناکام رہے۔ فوٹو: اے ایف پی

آپریشن کے اختتام پر ڈی آئی جی سی ٹی ڈی اعتزازاحمد گورائیہ کے ہمراہ میڈیا کے نمائندوں کو بریفنگ دیتے ہوئے ڈی آئی جی غلام اظفر نے بتایا کہ نالے کے اندر اترنے والے پولیس اہلکاروں کو دیکھتے ہی ملزمان نے فائرنگ شروع کردی تھی جس پر پولیس نے جوابی کارروائی کی۔ فائرنگ کے تبادلے میں آٹھ منشیات فروش مارے گئے جبکہ سات کو گرفتار کیا گیا جن میں دو کو زخمی حالت میں پکڑا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ مارے گئے ملزمان میں منشیات فروشوں کے گروہ کا سرغنہ آصف عرف صفو بھی شامل تھا جو پولیس پر فائرنگ، دہشت گردی، قتل اور اقدام قتل سمیت کم از کم 9 مقدمات میں مطلوب تھا اور منشیات فروشوں کی ’وانٹڈلسٹ‘ میں پہلے نمبر پر تھا۔ باقی مارے گئے سات افراد بھی انتہائی مطلوب منشیات فروش تھے۔
ڈی آئی جی نے بتایا کہ ملزمان سے پستول اور آٹو میٹک مشین گن سمیت جدید اسلحہ اور بھاری مقدار میں منشیات بھی برآمد کی گئی ہیں۔ ان کے مطابق ملزمان نے نالے کے اندر خفیہ ٹھکانے اور اڈے قائم کر رکھے تھے جنہیں مسمار کیا جا رہا ہے۔
مارے گئے باقی چھ ملزمان کی شناخت عزت اللہ، جنیدعرف بیدو ماما، نادر، عنایت اللہ، شوراوئی باور عبید کے نام سے ہوئی ہے جبکہ ایک کی اب تک شناخت نہیں ہوسکی ہے۔
پولیس کی جانب سے اردو نیوز کو فراہم کئے گئے ریکارڈ کے مطابق ملزم جنید احمد کے خلاف گزشتہ چھ سالوں میں کوئٹہ کے چار مختلف تھانوں میں منشیات فروشی کے الزام میں چار مقدمات درج کیے گئے تھے جس میں وہ گرفتار بھی ہوئے تھے تاہم انہیں بعد ازاں ضمانت پر رہائی ملی۔
ملزم عزت اللہ ڈکیتی کے الزام میں پچھلے سال فروری میں اورملزم عنایت اللہ نومبر 2019 میں چوری کے الزام میں گرفتار ہونے کے بعد ضمانت پر رہا ہوا تھا۔ ملزم نادر پر 2015 میں تھانہ گولمنڈی میں منشیات فروشی کے الزام میں مقدمہ درج تھا۔
ڈی آئی جی کا کہنا تھا کہ ہلاک ہونے والے ملزمان کے خلاف درج مقدمات کی تعداد اس سے بھی زیادہ ہوسکتی ہے، پولیس اپنے ریکارڈ کا جائزہ لے رہی ہے۔

پولیس کے مطابق دہشت گرد تنظیمیں منشیات سے فنڈز جمع کرتی ہیں۔ ۔فوٹو: اے ایف پی

’دہشتگرد تنظیمیں منشیات کے کاروبار سے پیسہ جمع کرتی ہیں‘
پولیس کے انسداد دہشتگردی محکمے (سی ٹی ڈی ) کے ڈی آئی جی اعتزازاحمد گورائیہ نے بتایا کہ دہشتگردی میں ملوث تنظیمیں بھتہ خوری اور منشیات کے کاروبار سے اپنے لیے فنڈز جمع کرتی ہیں۔ 
ان کا کہنا تھا کہ حکومت اور آئی جی پولیس کی ہدایت پر صرف یہ آپریشنز ہی نہیں ہورہے بلکہ منی لانڈرنگ کی بھی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں جس میں بڑے بڑے نام بھی شامل ہیں۔ ’ان کے خلاف ہم نے اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ  کے تحت تفتیش شروع کر دی ہے جس میں سٹیٹ بینک، فنانشنل مانیٹرنگ یونٹ، ایف آئی اے ، اے این ایف اور دیگر اداروں کی مدد لی جا رہی ہے۔‘ 
اعتزاز گورائیہ نے بتایا کہ  کالعدم بلوچ لبریشن آرمی، داعش اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان بھتہ خوری اور منشیات کا کاروبار کرتی ہیں اس میں کچھ بینک اکاؤنٹس بھی ملوث ہیں جہاں سے پیسہ ٹرانسفر ہوتا ہے۔ ’حوالہ ہنڈی کے حوالے سے ایف آئی اے سے ہمارا باہمی معاہدہ ہوچکا ہے جس میں حوالے کے ذریعے افغانستان کے سرحدی شہر سپین بولدک پیسہ جاتا ہے اور آتا بھی ہے۔‘
ڈی آئی جی سی ٹی ڈی کے مطابق ’حوالہ ہنڈی کے ذریعے  بہت بڑی رقم جاتی ہے جس میں بی ایل اے والے بینک اکاؤنٹس استعمال کرتے ہیں، داعش کررہی ہے، ٹی ٹی پی کر رہی ہے وہ جب ہم کسی نتیجے پر پہنچیں گے تو سامنے لائیں گے۔‘
کیا افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد بھی ایسا ہو رہا ہے؟ اس سوال پر سی ٹی ڈی پولیس کے ڈی آئی جی کا کہنا تھا کہ وہ سرحد پار کی بات نہیں کرسکتے لیکن ’ان تنظیموں کی بات کرسکتے ہیں جو یہاں پر سرگرم ہیں اور وہ یہ سارا کام کرتی ہیں۔ ان کے لیے یہ ایزی پیسہ ہے بھتہ خوری کا بھی اور منشیات کا بھی۔‘

شیئر: