Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چترال میں چوتھی انٹرنیشنل ہندوکش کلچرل کانفرنس، بین الاقوامی سکالرز کی شرکت

سنہ 1970 میں ڈنمارک میں پہلی ہندوکش کلچرل کانفرنس منعقد کی گئی تھی۔
چترال میں چوتھی انٹرنیشنل ہندوکش کلچرل کانفرنس کا انعقاد رواں ہفتے کیا گیا جس میں بین الاقوامی سکالرز نے شرکت کی۔
کانفرنس کی میزبانی انجمن ترقی کھوار چترال اور فورم فار لینگویج انیشیٹیو (ایف ایل آئی) اسلام آباد نے مشترکہ طور پر کی۔
کانفرنس کی صدارت امریکی ماہر لسانیات ڈاکٹر الینا بشیر نے کی۔ اس موقع پر 100 کے قریب مندوبین نے اس خطے کے بارے میں تحقیقی مقالے پیش کیے۔
کانفرنس کے لیے سات موضوعات طے کیے گئے جن میں تاریخ، جعرافیہ، کلچر، کلاش ورثہ، لسانیات، کثیر السانی تعلیم اور سیاحت شامل تھے۔
کانفرنس میں 20 سے زیادہ غیر ملکی سکالرز شریک ہوئے۔ اس بار کانفرنس میں پاکستانی یونیورسٹیوں کی دلچسپی نمایاں تھی اور بیشتر مندوبین ملک بھر کی یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور ریسرچ میں مصروف طلبہ تھے۔
کانفرنس میں پیش کیے گئے مقالے جلد کتابی صورت میں شائع کیے جائیں گے۔
خیال رہے تیسری کانفرنس کے موقع پر یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ اس کانفرنس کو ایک مستقل سلسلے کی شکل دی جائے اور اگلی کانفرنس پانچ سال کے اندر بلائی جائے۔ لیکن ملک میں امن و امان کی مجموعی صورت حال ایسی نہیں رہی کہ بڑی تعداد میں غیر ملکی مندوبین کو یہاں بلایا جا سکے۔
حالات بہتر ہونے کے بعد فیصلہ ہوا کہ کانفرنس ستمبر 2020 میں منعقد کی جائے لیکن اس دوران کووڈ کی وبا کے سبب پروگرام ایک بار پھر معطل ہوا۔ بالآخر 2022  کی 14 سے 16 تاریخوں کے درمیان کانفرنس منعقد ہوئی۔
ہندوکش کلچر کانفرنس کا مختصر تعارف اور پس منظر
ہندوکش انٹرنیشنل کلچرل کانفرنس طویل تعطل کے باوجود ایک مستقل علمی اور تحقیقی روایت بن چکی ہے۔ اس کے تحت اب تک پاکستانی کے شمالی پہاڑی خطے کے بارے میں بیش بہا عملی ذخیرہ پیدا کیا جا چکا ہے۔
اس فورم پر پوری دنیا کے سکالرز کو مل بیٹھنے اور ایک دوسرے کے خیالات جاننے کا موقع ملتا ہے۔ 
باہر سے آئے ہوئے مندوبین ہمارے مقامی لوگوں سے گھل مل کر ہمارے بارے میں بہت کچھ جان کر جاتے ہیں۔ مقامی یونیورسٹیوں کے طلبہ کے لیے یہ ایک نادر موقع ہوتا ہے کہ وہ دنیا کے چوٹی کے سکالرز کو نہ صرف سنیں بلکہ ان کے ساتھ کھل کر تبادلہ خیالات کریں۔
پاکستان کے ایک دور دراز گوشے میں اس قسم کی سرگرمی ملک کے دیگر حصوں کے لیے قابل تقلید چیز ہے۔
پہلی ہندوکش کلچرل کانفرنس مویسگارڈ، ڈنمارک
سنہ 1970 میں ڈنمارک میں پہلی ہندوکش کلچرل کانفرنس بلائی گئی۔ اس کا مقصد ہاکستان اور افغانستان کے شمال کے پہاڑی خطے پر سائینسی تحقیق کرنے والے سکالرز کی سرگرمیوں میں ربط پیدا کرنا تھا۔
چترال بلکہ پاکستان سے اس کانفرنس میں صرف ایک مندوب وزیر علی شاہ شامل ہوئے جنہوں نے اپنے اور شہزادہ محمد حسام الملک کے مقالات پیش کیے۔ جب کہ افغانستان سے کابل یونیورسٹی کے پروفیسرحسن کاکڑ اور کابل میوزیم کے ڈائرکٹر احمد علی معتمدی کے ساتھ تین دیگر شرکا مدعو تھے۔
ان کے علاوہ یورپ سے کارل یٹمار اور جارج بڈروس سمیت پندرہ سے زیادہ سکالر شریک ہوئے۔ ماہر لسانیات پروفیسر جارج موگنسٹیرن کانفرنس کے پریذیڈنٹ تھے۔ کانفرنس میں پیش کیے جانے والے مقالات کا مجموعہ ’دی کلچر آف ہندوکش‘ کے نام سے ہائیڈل برگ یونیورسٹی جرمنی سے شائع ہوا۔

دوسری ہندوکش کلچرل کانفرنس، چترال
سنہ 1990 میں چترال کی زبان کھوار کی ترقی و تریج کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’انجمن ترقی کھوار‘ نے اس کانفرنس کو دوسری بار بلانے کا منصوبہ بنایا۔
پشاور یونیورسٹی کے پروفیسر اسرار الدین اس کے کنوینر تھے اور انجمن ترقی کھوار چترال کے صدر عنایت اللہ فیضی ان کے دست راست۔ کانفرنس 19 ستمبر  سے 23 تاریخ تک جاری رہی۔ جرمن ماہر بشریات ڈاکٹر کارل جیٹمر اس کانفرنس کے جنرل پریذیڈنٹ تھے۔
کانفرنس میں بیرون ملک اور پاکستان کے مختلف حصوں سے آئے ہوئے سکالرز کے علاوہ مقامی محققین نے بھی بھرپور حصہ لیا۔
علاقے کی تاریخ، کلچر، زبانوں، جیوگرافی، معیشت، قدرتی ماحول، موسم جیسے موضوعات پر چالیس سے زیادہ مقالے پڑھے گئے۔ یہ مقالات بعد میں ڈاکٹر الینا بشیر اور پروفیسر اسرار الدین کی ادارت میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس سے شائع ہوئے۔
تیسری انٹرنیشنل ہندوکش کلچرل کانفرنس، چترال
اس سلسلے کی تیسری کانفرنس چترال میں اگست 1995 کی 26 سے 30 تاریخ تک منعقد ہوئی۔
اس کانفرنس کے کنوینر پروفیسر اسرار الدین تھے اور میزبان تنظیم انجمن ترقی کھوار کے صدر ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی تھے۔
کانفرنس کے جنرل پریذیڈنٹ پٹ ریورز میوزیم آکسفورڈ کے کیوریٹر ڈاکٹر شیولر جونز مقرر ہوئے۔
اس موقع پر پچاس سے زیادہ مقالے پڑھے گئے جن میں سے نصف سے زیادہ بیرون ملک سے آئے مندوبین کے تھے۔ کانفرنس کے مقالے پروفیسر اسرار الدین کی ادارت میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس سے شائع ہوئے۔

شیئر: