Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’پنجاب حکومت عمران خان کے لانگ مارچ کا حصہ نہیں بنے گی‘

پاکستان کے صوبہ پنجاب میں وزیر اعلٰی پرویزالٰہی کی حکومت کے وزیر داخلہ ہاشم ڈوگر نے اردو نیوز کو ایک خصوصی انٹرویو میں بتایا ہے کہ اگر عمران خان لانگ مارچ کا اعلان کرتے ہیں تو پنجاب حکومت اس کا حصہ نہیں بنے گی۔
جب ان سے یہ سوال کیا گیا کہ کیا پنجاب حکومت لانگ مارچ میں حصہ لینے والوں کو سہولیات فراہم کرے گی؟ تو ان کا جواب تھا کہ ’دیکھیں سہولیات نہیں دی جائیں گی۔ ہم سرکاری وسائل استعمال نہیں کریں گے۔ کیونکہ یہ ایک سیاسی معاملہ ہے۔ حکومت کو اس کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔‘
وزیر داخلہ ہاشم ڈوگر نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’اگر بطور ہوم منسٹر آپ مجھ سے پوچھتے ہیں توہمارا کام یہ ہو گا کہ جتنے لوگ بھی لانگ مارچ کے لیے نکلیں گے ہم انہیں سیکیورٹی مہیا کریں گے۔‘
انہوں نے مزید کہا ’ایک جم غفیر ہو گا تو اس میں لوگوں کو سکیورٹی دینا بہت ضروری ہے۔ تمام سڑکیں جام ہو جائیں گی تو ہم نے زندگی کے دیگر معمولات بھی چلانے ہیں۔ اشیا کی آمد و رفت کو بھی دیکھنا ہے۔ ہم تو ان سارے معاملات میں مصروف ہوں گے۔‘  
پنجاب کے وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ ’ایک سیاسی کارکن کے طورپر ہم پنجاب حکومت سے کسی قسم کی مدد نہیں لیں گے۔ نہ ہم پولیس سے کہیں گے کہ وہ جا کر کنٹینر اٹھائے نہ ہم پولیس کو کہیں گے کہ وہ آگے جا کر اسلام آباد پولیس سے لڑائی کرے۔ ہم ایسا کوئی کام نہیں کریں گے، ہمارا ایسا کوئی ارادہ نہیں۔‘  
جیل میں شہباز گل پر تشدد  
ہاشم ڈوگر نے انٹرویو میں ایک مرتبہ پھر کہا کہ وہ اپنی اس بات پر قائم ہیں کہ جیل کے اندر شہباز گل پر تشدد نہیں ہوا۔
’میرا آج بھی موقف وہی ہے جو میرے چیئرمین کا ہے کہ جس شام ان کو بنی گالہ کے باہر سے گرفتار کیا گیا, اس کے بعد دو راتیں وہ اسلام آباد پولیس کی حراست میں رہے۔ اسی دوران ان پر تشدد کیا گیا۔ اور خاصا خوفناک تشدد کیا گیا۔‘
’اس کے بعد وہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل میں آ گئے۔ اب جیل میرے انڈر آتی ہے۔ وہاں پر ان کو نارمل انداز میں رکھا گیا۔ جیسے عام قیدیوں کو رکھتے ہیں۔ خدانخواستہ تشدد کی تو ہم ویسے ہی اجازت نہیں دیتے کسی بھی قیدی کے ساتھ ہو۔‘  
انہوں نے مزید کہا کہ ’خاص طور پر شہباز گل صاحب کے ساتھ کیسے ممکن تھا کہ جیل میں تشدد ہو جاتا۔ اس کے بعد چیزیں کافی تیزی کے ساتھ تبدیل ہوئیں، ابھی تشدد والا معاملہ عدالت میں ہے دیکھتے ہیں بات کس طرف جاتی ہے۔‘  

پی ٹی آئی نے رواں سال 25 مئی کو اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کیا تھا۔ فائل فوٹو: اے پی پی

بیورو کریسی سے شکوہ
پنجاب کے وزیر داخلہ نے ایک مرتبہ پھر سول بیورو کریسی سے شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس طرح کام نہیں کر رہی جیسے اسے کرنا چاہیے۔
’بیوروکریسی جو ہوتی ہے نا جی اس کا اپنا ہی رویہ ہوتا ہے۔ یہ تھوڑا لانگ ٹرم دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ یہ میرا ایک دیکھنے کا طریقہ ہے۔ یہ دیکھتے ہیں کہ کون حکومت میں رہے گا اور کون نہیں۔ مجھے یہ کہنے میں کو عار نہیں کہ ہمیں (بیوروکریسی سے) مسائل آتے ہیں۔ یہ تو یہ بھی دیکھتے ہیں کہ اب یہ حکومت آئی ہے تو کتنی دیر چلے گی، آگے کسی کی حکومت آ رہی ہے۔‘  
ہاشم ڈوگر نے بتایا کہ وہ فوج میں رہے ہیں وہاں کام ایک خاص طرح کے ڈسپلن میں ہوتا ہے اور کام میں کسی قسم کی رکاوٹ کا تصوربھی نہیں کیا جا سکتا۔
’یہاں جس قسم کی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس سے شدید مایوسی ہوتی ہے۔ یہ ایسا نظام ہے جس میں کوئی چیز مکمل ہونے کے لیے بہت وقت لیتی ہے۔‘  
چیف سیکریٹری پنجاب کی تقرری کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ جب وفاق میں کوئی اور حکومت اور صوبے میں کسی اور جماعت کی حکومت ہو تو اس طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جیسے ابھی چیف سیکریٹری کا تقرر تاخیر کا شکا ہے۔
’یہ ایک عجیب طرح کی صورت حال پیدا ہو جاتی ہے۔ اور یہ کوئی پرسکون معاملہ نہیں ہے۔ مگر ابھی جن کے پاس چارج ہے چونکہ ان کا زیادہ کام وزیراعلٰی کے ساتھ ہوتا ہے تو ابھی تک یہ ٹھیک چل رہا ہے‘  
خیال رہے کہ پنجاب میں سابق چیف سیکریٹری کامران افضل نے کام کرنے سے معذرت کر لی تھی اور وہ چھٹیوں پر چلے گئے تھے ان کی جگہ عبداللہ سنبل کو پنجاب کا عارضی چیف سیکریٹری بنایا گیا ہے۔  

وزیر داخلہ پنجاب کے مطابق شہباز گل پر جیل میں تشدد نہیں کیا ہوا۔ فائل فوٹو: اے پی پی

’لیول پلینگ فیلڈ دے کر بھی دیکھ لیں‘
وزیر داخلہ پنجاب ہاشم ڈوگر نے سیاسی میدان میں سب سٹیک ہولڈرز کو لیول پلینگ فیلڈ دیے جانے کے امکان پر کہا کہ کسی خاص لیول پر یہ منصوبہ بندی کی جا رہی ہے کہ لیول پلینگ فیلڈ دے دی جائے۔
’دنیا کے سب سے کرپٹ ترین خاندان جس پر کرپشن کا سب سے بڑا الزام ہے اگر آپ ان کو لیول پلیئنگ فیلڈ دینا چاہتے ہیں تو عوام ان کو لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں دے گی۔ عوام نے اپنا فیصلہ دے دیا ہے۔ میں ایک سیاستدان ہوں ہم عوام کے پاس جاتے ہیں۔ لیکن اس دفعہ الیکشن میں ہم ووٹ مانگنے جائیں گے ہی نہیں۔ نہ ہمیں کمپین کی کوئی ضرورت ہے۔ عوام نے واضح لائن کھینچ دی ہے اب جس نے عمران خان کو ووٹ دیا ہے اس نے دینا ہی دینا ہے۔‘  
ان کا کہنا تھا کہ ’جن لوگوں نے ووٹ نہیں دینا جن کو پٹواری کہا جاتا ہے وہ بھی ایک قبیلہ ہے۔ ابھی لیول پلیئنگ فیلڈ دینے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ہم تو چاہتے ہیں کہ مریم نواز کا پاسپورٹ واپس ملا ہے اور اب سن رہے ہیں کہ نواز شریف بھی واپس آ رہے ہیں ہم عدالتوں کے ذریعے کسی کو باہر نکالنے کے حق میں نہیں، البتہ یہ چاہ رہے ہیں کہ عمران خان کو کسی طریقے سے سسٹم سے باہر کیا جائے۔ جس دن یہ ہوا حالات قابو سے باہر ہو جائیں گے۔‘ 

شیئر: