Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ڈالر ریٹ میں ہیر پھیر کے ذریعے بینک کیسے فائدہ اُٹھاتے ہیں؟

حکومتی رپورٹ کے مطابق ’آٹھ کمرشل بینکوں نے ڈالر کے ہیر پھیر سے فائدہ اٹھایا‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
سٹیٹ بینک آف پاکستان نے کرنسی مارکیٹ میں ڈالر ریٹ میں مبینہ ہیر پھیر کے ذریعے اربوں روپے کمانے والے آٹھ کمرشل بینکوں کی فہرست منگل کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ میں پیش کی۔ 
فہرست کے مطابق ایچ بی ایل، یو بی ایل، الائیڈ بینک، نیشنل بینک، میزان بینک، بینک الحبیب، سٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک اور حبیب میٹرو بینک نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے۔ 
حکومت کی جانب سے یہ کہا جا رہا ہے کہ سٹیٹ بینک قانون کے مطابق جائزہ لے کر ملوث بینکوں کے خلاف کارروائی کرے گا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بینک ڈالر ریٹ میں ہیر پھیر کیسے کرتے ہیں اور اس کا فائدہ کس کو ہوتا ہے؟  
سابق سیکریٹری خزانہ اور معاشی امور کے ماہر ڈاکٹر اشفاق حسن خان کے مطابق ’بینکوں کے پاس ڈالر ریٹ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ اور ہیر پھیر کے سینکڑوں طریقے ہیں۔‘
’یہ آپس میں مل جاتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ کل ریٹ یہاں تک پہنچانا ہے جس سے مارکیٹ میں ڈالر کی مصنوعی قلت پیدا کی جاتی ہے۔ فاریکس ایسوسی ایشن کو اس میں شامل کیا جاتا ہے تاکہ مطلوبہ نتائج حاصل کریں۔‘ 
ان کے مطابق ’پاکستان سالانہ 65 سے 70 ارب ڈالر کی درآمدات کرتا ہے جن کی ادائیگیاں ایل سی کے ذریعے کی جاتی ہیں۔ بینک جب یہ ایل سی کھولتے ہیں تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ بینک وہ رقم جسے سے درآمدی سامان خریدا گیا ہے اس کے اکاؤنٹ میں منتقل کرتے ہیں۔‘
’ہوتا یہ ہے کہ جب بینک اس ایل سی کے لیے پاکستانی امپورٹر سے رقم وصول کرتے ہیں تو اسے کہتے ہیں کہ ہم آپ کو 10 روپے زیادہ کا ڈالر ریٹ دیتے ہیں اور یہ کوئی بینک اکیلا نہیں کرتا بلکہ پانچ سات بینک مل کر یہ طے کرتے ہیں۔‘
اشفاق حسن کے مطابق ’جب وہ یہ کر لیتے ہیں تو پھر جان بوجھ کر مارکیٹ میں ڈالر کی قلت پیدا کرتے ہیں۔ جب بھی کوئی گاہک بینک جاتا ہے ڈالر خریدنے تو اسے کہتے ہیں کہ ڈالر شارٹ ہے جس وجہ سے ڈالر کی قیمت اوپر چلی جاتی ہے۔

ڈاکٹر اشفاق حسن کا کہنا ہے کہ ’ڈالر کے ہیر پھیر میں پانچ سات بینک اور سٹیٹ بینک کے ذمہ دار بھی شامل ہوتے ہیں‘ (فائل فوٹو: سٹیٹ بینک ویب سائٹ)

اس حوالے سے حکومت کے کردار پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ جب سٹیٹ بینک کہہ رہا ہے کہ آٹھ بینکوں نے ڈالر ریٹ میں ہیر پھیر کی اور ارکان قومی اسمبلی کے  مطابق ان بینکوں نے ملکی معیشت کے ساتھ کھلواڑ کیا تو پھر وزارت خزانہ ان کے خلاف کارروائی سے کیوں گریزاں ہے؟  
اس معاملے پر وزیر مملکت برائے خزانہ ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’کرنسی ریٹ پر سٹیٹ بینک بینکوں کے خلاف تحقیقات کر رہا ہے۔‘
’سٹیٹ بینک متعلقہ قانون کے مطابق ایکشن لے رہا ہے۔ ٹرانزیکشن میں ثابت ہوگا تو قوانین کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔‘
ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے مزید کہا کہ ’جو بھی ہوا ہے غلط ہوا ہے، اگر غلط ٹرانزیکشن ہوئی ہے تو سخت جرمانہ ہوگا۔‘
’سٹیٹ بینک ایک آزاد ادارہ ہے کسی کو جواب دہ نہیں ہے۔ اگر کسی ہیر پھیر کے شواہد ملتے ہیں تو قانون کے مطابق سٹیٹ بینک ایکشن لے سکتا ہے۔‘

ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا کا کہنا ہے کہ ’جو بھی ہوا ہے غلط ہوا ہے، اگر غلط ٹرانزیکشن ہوئی ہے تو سخت جرمانہ ہوگا‘ (فائل فوٹو: قومی اسمبلی ٹوئٹر)

ڈاکٹر اشفاق حسن کا کہنا ہے کہ ’اس میں پانچ سات بینک اور سٹیٹ بینک کے ذمہ دار بھی شامل ہوتے ہیں ورنہ سٹیٹ بینک ریگولیٹر ہے کسی بھی بینک کے خلاف ایکشن لے سکتا ہے۔ بنگلہ دیش کے مرکزی بینک نے ایک ہفتے میں چھ بینکوں کے خلاف ایکشن لیا تو یہ کیوں نہیں لے سکتے؟‘
ان کے مطابق ’جس طریقے یہ واردات ڈالی جاتی ہے سٹیٹ بینک کے لیے ایسی چیزوں کو ثابت کرنا بڑا مشکل ہو جاتا ہے۔ لبرلائزیشن اور غیر یقینی کی صورت حال سے سرمایہ کار ساری دنیا میں فائدہ اٹھاتے ہیں اور پاکستان میں اٹھا رہے ہیں۔ جوکہ غلط ہے۔‘
’موجودہ صورت حال میں بھی حکومت اور سٹیٹ بینک جو کچھ کر رہے ہیں یہ صرف زبانی جمع خرچ ہے کسی بینک کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی۔‘  

شیئر: