Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’نسل پرستی، اسلاموفوبیا‘، کینیڈا کی رواداری کا تصور دُھندلا گیا

2017 میں کیوبک کے اسلامک سینٹر پر حملے میں 10 مسلمانوں کو قتل کر دیا گیا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
’کینیڈا میں نسل پرستی موجود نہیں ہے‘ یہ جملہ کینیڈا کو ایک خوشگوار اور روادار ملک کے طور پر پیش کرتا ہے مگر نفرت پر مبنی جرائم کے تسلسل، قتل اور مختلف قومیتوں کے خلاف نسلی تعصب کے واقعات اس تصویر کو دھندلا رہے ہیں۔
عرب نیوز کے مطابق کینیڈین حکومت کی ویب سائٹ بتاتی ہے کہ تنوع اور دنیا کے مختلف گوشوں سے افراد کی موجودگی کینیڈا اور معاشی ترقی کی علامت ہے۔
عام طور پر دنیا میں کینیڈین افراد کے بارے میں لوگوں کا خیال مثبت ہے جو بڑے نرم انداز میں پیش آتے ہیں جبکہ لندن کے ادارے لیگیتم انسٹی ٹیوٹ نے 2015 میں کینیڈا کو روادار ترین ملک قرار دیا تھا۔
تاہم کینیڈا کی تصویر کے پیھچے چھپی تاریکی دھیرے دھیرے لوگوں کا خیال تبدیل کر رہی ہے جہاں امتیاز، اسلاموفوبیا اور نسل پرستی پر مبنی واقعات بڑھ رہے ہیں۔
پچھلے ہفتے چھ کینڈین نوجوانوں کو نفرت پر مبنی جرائم اور ایک شامی پناہ گزین پر حملے کا مجرم قرار دیا گیا۔
اس حملے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر شیئر ہوئی۔ یہ واقعہ آٹھ ستمبر کو اوٹاوا کے ایک سکول میں ہوا تھا۔
ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پندرہ سالہ شامی لڑکے کے اردگرد کینیڈین لڑکے موجود ہیں جو اس کے گلے سے ہار نوچتے ہیں اور نیچے گرا کر مکے اور لاتیں برساتے ہیں۔
ان میں سے چھ نوجوانوں پر ڈکیتی، جرم کی منصوبہ بندی کرنے اور دھمکیوں کے الزامات بھی لگائے گئے ہیں۔

کینیڈا میں مسلمانوں کے خلاف نسل پرستانہ واقعات میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے یو این ایچ سی آر کے مطابق کینیڈا پناہ گزینوں کے حوالے سے خوش آئند پالیسی رکھتا ہے اور ملک کا تقریباً پانچواں حصہ غیرملکیوں پر مشتمل ہے۔ کینیڈا 1980 سے اب تک 10 لاکھ سے زائد پناہ گزینوں کو اپنا چکا ہے۔
تاہم تمام کینیڈین اتنی خوش دلی سے دوسرے ملکوں سے آنے والوں کو قبول نہیں کرتے خصوصاً جب وہ مشرق وسطٰی سے آئے ہوں۔
آنگس ریڈ انسٹی ٹیوٹ کے ایک سروے میں بتایا گیا ہے کہ 35 فیصد کینیڈین افغانستان سے آنے والے لوگوں کو قبول کرتے ہیں جبکہ شام سے آنے والوں کو 31 فیصد قبول کرتے ہیں۔
 شامی نوجوان پر حملے کے علاوہ بھی دیکھا جائے تو ایک دہائی میں کینیڈا میں مسلمانوں کے خلاف عدم برداشت میں اضافہ ہوا ہے۔
ستمبر 2014 میں اونٹریو کوینز یونیورسٹی کے مسلمان طلبہ پر کچھ لوگوں نے نسل پرستانہ نعرے لگاتے ہوئے حملہ کیا تھا۔
اسی طرح مئی 2016 میں اسی یونیورسٹی میں ایک ایرانی نژاد طالب علم کو ’عرب‘ قرار دیتے ہوئے اس پر حملہ کیا گیا تھا۔
جنوری 2017 میں کیوبک میں ایک مسلح شخص نے ایک اسلامک سینٹر پر حملہ کیا تھا اور 10 افراد کو ہلاک اور 19 کو زخمی کر دیا تھا۔
تین سال بعد ٹورنٹو کے ایک بین الاقوامی مسلم تنظیم کے رضاکار پر چاقو سے حملہ کیا گیا۔

وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے اسلامک سینٹر پر حملے میں مرنے والوں کے لیے دکھ کا اظہار کیا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے اسلامک سینٹر پر حملے میں مرنے والوں کے لیے دکھ کا اظہار کیا تھا اور 2017 میں مونٹرئیل کے اسلامک سینٹر میں ہلاک کیے جانے والے مسلمانوں کے جنازوں کے موقع پر سوگ میں شامل ہوئے تھے۔
کینیڈا میں حجاب پہننے والی خواتین کو لفظی اور جسمانی حملوں کا سامنا بھی رہا ہے۔
دسمبر 2020 میں ایڈمونٹن میں دو مسلمان خواتین پر ایک شخص نے حملہ کیا تھا۔
گزشتہ سال ایک پورے مسلمان خاندان کو اونٹریو کے علاقے میں گاڑی کی ٹکر سے ہلاک کر دیا گیا تھا جن میں 77 سالہ طلعت افضال ان کے بیٹے سلمان ان کی بیوی مدیحہ، 15 سالہ یمنہ اور نو سالہ فائز شامل تھے۔
واقعے کے بعد پولیس نے بتایا تھا کہ واقعے کا محرک اسلاموفوبیا تھا۔

2021 میں ایک پورے مسلمان خاندان کو اونٹریو کے علاقے میں گاڑی کی ٹکر سے ہلاک کر دیا گیا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اسی طرح ان کے بعد بھی نفرت، نسل پرستی اور اسلاموفوبیا پر مبنی واقعات ہوتے رہے ہیں۔
کینیڈا میں نسل پرستی کی جڑیں ملک کی پالیسیوں اور نظام میں کافی گہری ہیں، یعنی ایسا نظام بنایا گیا جس سے سفید فام نوآبادیاتی افراد کو فائدہ پہنچا جبکہ نوآبادیات سے قبل رہنے والے افراد کو نقصان ہوا۔
2017 میں کینیڈا کی پارلیمان میں تحریک لائی گئی تھی جس میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ اسلاموفوبیا کے واقعات کی مذمت کرے جبکہ امتیاز اور نسل پرستی کم کرنے کے لیے اقدامات کرے۔
اگرچہ بل پاس ہو گیا تھا تاہم اس کے بعد احتجاج شروع ہو گیا تھا جن میں مسلمانوں کے خلاف گروپس بھی شامل تھے۔
اقرا خالد نامی جس خاتون نے یہ بل پیش کیا تھا ان کو ہزاروں کی تعداد میں نفرت پر مبنی ای میلز موصول ہوئی تھیں۔
پچھلے سال کینیڈا کی حکومت نے اسلاموفوبیا کے حوالے سے ہونے والے اجلاس کی میزبانی کی تھی اور کہا تھا کہ وہ 29 جنوری کو کیوبک کی مسجد پر حملے میں مرنے والوں کی یاد کے طور پر منانے کے لیے منصوبہ بندی کر رہی ہے۔
اگرچہ کینیڈا کے مسلمانوں نے شامی لڑکے پر حملہ کرنے والوں پر الزامات عائد ہونے پر خوشی کا اظہار کیا ہے مگر ان کا خیال ہے دنیا میں اپنا امیج بہتر بنانے کے لیے کینیڈا کو ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔

شیئر: