Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسلاموفوبیا، ’برطانیہ میں مسلمانوں کو کسی بھی وقت حملے کا خدشہ‘

محمد کوزبر کا کہنا ہے کہ برطانیہ میں اسلاموفوبیا کے کیسز بڑھ رہے ہیں۔ (فوٹو: شٹر سٹاک)
برطانیہ میں مسلم کمیونٹی کے ایک سرکردہ رکن نے دعویٰ کیا ہے کہ یہاں رہنے والے مسلمانوں کو ان پر ’کسی بھی وقت حملے‘ کا خدشہ رہتا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق لندن میں فنسبری پارک کے چیئرمین محمد کوزبر نے کہا ہے کہ برطانیہ میں اسلاموفوبیا کے کیسز بڑھ رہے ہیں۔
2017 میں فنسبری پارک مسجد دہشت گردانہ حملے کا نشانہ بنی تھی۔
پانچ برس قبل 19 جون کو مسجد سے چند گز کے فاصلے پر ایک وین پیدل چلنے والوں پر چڑھ گئی تھی جس کے نتیجے میں ایک شخص ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے تھے۔
محمد کوزبر نے مزید کہا کہ ’ہماری کمیونٹی اب بھی خوف محسوس کرتی ہے اور ان کو کسی بھی وقت حملے کا خدشہ ہوتا ہے۔ ایسا ایک بار نہیں ہوا۔ صورت حال مزید بدتر ہوگئی ہے۔ اسلاموفوبیا عروج پر ہے اور اس صورت حال سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا۔‘
ان کا تبصرہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ایک نئی تحقیق میں انکشاف ہوا کہ گزشتہ تین برسوں میں برطانیہ میں کئی مساجد پر حملے ہوئے۔
یہ تحقیقاتی رپورٹ مسلم انگیجمنٹ اینڈ ڈیویلپمنٹ گروپ ’مینڈ‘ نے مرتب کی ہے۔ رپورٹ میں 100 سے زیادہ مساجد کے اعداد و شمار کا تجزیہ کیا گیا ہے جس میں انکشاف ہوا ہے کہ 35 فیصد اسلامی مراکز نے ہر سال کم از کم ایک مسلم مخالف حملے کا سامنا کیا ہے۔
محمد کوزبر کا کہنا ہے کہ ’ہمارے پاس ابھی تک اسلاموفوبیا کی کوئی تعریف نہیں۔ ہمارے پاس کمیونٹی کے تحفظ کے لیے کوئی قانون یا قانون سازی بھی نہیں ہے۔ ہمیں امید ہے کہ حکومت ایکشن لے گی۔‘

2017 میں فنسبری پارک مسجد دہشت گردانہ حملے کا نشانہ بنی تھی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

مینڈ کی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ چوری اور توڑ پھوڑ جیسے جرائم سے مسلم اداروں کو نقصان پہنچا ہے۔
تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق انگلینڈ اور ویلز میں مسلم مخالف رجحان میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اس میں 15 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
2021 میں نسلی اور مذہبی طور پر درج جرائم کی تعداد 76 ہزار884 اور 2020 میں 66 ہزار 742 تھی۔
مینڈ کے ریجنل مینیجر نعیم حق نے سکائی نیوز کو بتایا کہ یہ اعدادوشمار برطانیہ میں بڑے پیمانے پر اسلاموفوبیا کے رجحان کی نشاندہی کرتے ہیں۔
’ہماری کمیونٹی میں کافی حد تک مزاحمت ہے اور مزاحمت کے ذریعے یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ اس سے ہمارا عقیدہ متاثر نہیں ہوگا۔‘

شیئر: