Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’بیٹی کو پھولوں کی طرح پالا، شوہر نے نماز پڑھتے ہوئے قتل کر دیا‘

آمنہ کے خاندان کے مطابق شادی سے پہلے وہ ملزم اور ان کے اہل خانہ کو نہیں جانتے تھے۔ (فوٹو: سحرش)
ہم نے بیٹی کو پھولوں کی طرح پالا لیکن اس کے ظالم شوہر نے اسے اس وقت گولی مار کر قتل کر دیا جب وہ نماز پڑھ رہی تھی۔‘
یہ الفاظ کوئٹہ کی رہائشی نسیم بی بی کے ہیں جن کی 20 سالہ بیٹی آمنہ کو ان کے شوہر نے مبینہ طور پر فائرنگ کر کے قتل کر دیا ہے۔
آمنہ سردار بہادر خان وومن یونیورسٹی کی طالبہ تھی۔ یونیورسٹی کی طالبات نے پیر کو واقعے کے خلاف احتجاج کرنے کا اعلان کیا تھا تاہم یونیورسٹی کی انتظامیہ نے یونیورسٹی کی حدود میں احتجاج کی اجازت نہیں دی۔
پولیس کے مطابق آمنہ 2 اکتوبر کو شوہر کے ماموں کے گھر سے مردہ حالت میں ملی تھی۔ انہیں سر پر دائیں جانب ایک گولی لگی تھی۔
ایس ایچ او جاوید بزدار نے اردو نیوز کو بتایا کہ آمنہ کے والد منظور احمد سرپرہ نے داماد شہاب کھوسہ کے خلاف پولیس تھانہ امیر محمد دستی میں قتل کا مقدمہ درج کرایا ہے۔
ایف آئی آر کے متن کے مطابق ’آمنہ کو اس کا شوہر شہاب کھوسہ کوئٹہ کے علاقے شاہ زمان سٹریٹ پر اپنے ماموں کے گھر لے کر گیا اور پھر نائن ایم ایم پستول سے فائر کر کے قتل کر دیا۔‘
ایس ایچ او جاوید بزدار نے اردو نیوز کو بتایا کہ واقعے کے بعد ملزم فرار ہو گیا اور اب تک روپوش ہے۔ پولیس نے ملزم کی گاڑی قبضے میں لے لی ہے اور اس کی گرفتاری کے لیے کوششیں کر رہی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ملزم کے والدین اور اہل خانہ بھی گھر چھوڑ کر رپوش ہو گئے ہیں اس لیے تفتیش میں مزید پیشرفت نہیں ہو سکی ہے۔
آمنہ کی بڑی بہن سحرش نے اردو نیوز کو بتایا کہ شادی سے پہلے ہم ملزم اور ان کے اہل خانہ کو نہیں جانتے تھے۔
’شہاب آمنہ کی کلاس فیلو اور سہیلی کا خالہ زاد تھا۔ سہیلی ہی ان کا رشتہ لے کر ہمارے گھر آئی تھی۔ ہم نے تب ان کے بارے میں پوچھ گچھ کی۔ لوگوں نے کوئی ایسی قابل اعتراض بات نہیں بتائی اس لیے ہم نے گزشتہ سال اگست میں شادی کرا دی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ یہ تو کسی کو معلوم نہیں ہوتا کہ انسان اندر سے کیسا ہے۔ ہمیں کیا پتہ تھا کہ اس کا شوہر اتنا ظالم ہے ورنہ ہم کبھی یہ رشتہ قبول نہیں کرتے۔

پولیس کے مطابق آمنہ 2 اکتوبر کو شوہر کے ماموں کے گھر سے مردہ حالت میں ملی تھی۔ (فوٹو: بلوچستان پولیس)

کیا آمنہ کو پڑھائی کی اجازت نہ ملنے پر ہونے والے جھگڑے کے بعد قتل کیا گیا؟

اس سوال پر بڑی بہن سحرش نے اردو نیوز کو بتایا کہ ہم نے آمنہ کو شادی کے بعد پڑھائی جاری رکھنے کے شرط پر ہی رشتہ دیا لیکن بعد میں وہ مکر گئے۔ شوہر نے شادی کے بعد آمنہ کو یونیورسٹی جانے نہیں دیا اور شادی کے تیسرے دن ہی اس کا رویہ تبدیل ہو گیا۔
سحرش کے مطابق آمنہ پڑھنا چاہتی تھی وہ ڈاکٹر بننا چاہتی تھی مگر جب میڈیکل میں داخلہ نہیں لیا تو کوئٹہ کے سردار بہادر خان وومن یونیورسٹی میں بی ایس آنرز ایجوکیشن میں داخلہ لیا اور وہ تیسرے سمسٹر کی طالبہ تھی جب ان  کی شادی ہوئی۔
ان کا کہنا تھا کہ اجازت نہ ملنے پر آمنہ نے پڑھائی چھوڑ دی تھی لیکن اس کے باوجود شوہر اسے مارتا پیٹا تھا۔
ایک دن اس نے مجھے بتایا کہ شوہر کا رویہ اچھا نہیں اور وہ کمرے میں ٹی وی کی آواز اونچی کر کے بری طرح سے مار تا پیٹتا ہے۔ یہ بات میں نے والد کو بتائی تو وہ ان کے گھر گئے۔‘
آمنہ کے والد منظور احمد نے بتایا کہ جب ہمیں پتہ چلا کہ داماد میری بیٹی کو تشدد کا نشانہ بناتا ہے تو ہم اسے لینے گئے لیکن اس کے شوہر نے بیٹی پر پستول تانی اور میکے جانے سے منع کر دیا۔ آمنہ کو بہت بری طرح مارا پیٹا گیا تھا اس کے ایک کان کا پردہ بھی پھٹ گیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’پھر ہم علاقے کے معززین کو لے کر گئے اور دو ماہ قبل بیٹی کو گھر لے آئے۔ کیونکہ ہم نے انہیں بیٹی کو کسی خون کے بدلے میں نہیں بلکہ ایک پیار اور محبت کے رشتے میں دیا تھا۔ ہم اس رشتہ کو ختم کرنا چاہتے تھے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’کچھ دنوں بعد داماد اور ان کے والد نے جرگے میں قرآن پر قسم کھا کر کہا کہ آئندہ آپ کی بیٹی پر کوئی تشدد نہیں ہوگا اس لیے ہم نے بیٹی کو واپس جانے دیا۔‘
منظور احمد نے بتایا کہ ’ہمیں کیا معلوم تھا کہ ملزم ہماری بیٹی کو قتل کر رہا ہے۔ ہم سو گئے تھے رات اڑھائی تین بجے پولیس والے ہمارے گھر آئی اور کہا کہ آپ کی بیٹی اور داماد نے ایکسیڈنٹ کیا ہے۔ جب ہم ہسپتال پہنچے تو بیٹی ہسپتال کے مردہ خانے میں خون میں لت پڑی تھی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ پولیس والوں اور پولیس سرجن کا رویہ اچھا نہیں تھا۔ پوسٹ مارٹم کے بدلے ہم سے رقم مانگی گئی۔ وہ مردے پر بھی سودے بازی کرنا چاہتے تھے اس لیے میں بیٹی کی لاش کو ایمبولنس میں لے جا کر دوسرے ہسپتال لے گیا۔
منظور احمد کا کہنا تھا کہ 10 دن گزرنے کے باوجود اب تک قاتل گرفتار ہوا اور نہ ہی ان کے اہل خانہ سے پوچھ گچھ کی گئی۔

آمنہ نے کوئٹہ کے سردار بہادر خان وومن یونیورسٹی میں بی ایس آنرز میں داخلہ لیا تھا۔ (فوٹو: یونیورسٹی)

’اس کے والد نے زندگی میں اسے کبھی تھپڑ بھی نہیں مارا‘

آمنہ کی والدہ نسیم بی بی کا کہنا تھا کہ ’میری بیٹی آمنہ بہت لاڈلی تھی ہم نے انہیں پھولوں کی طرح پالا اس کے والد نے زندگی میں اسے کبھی تھپڑ بھی نہیں مارا۔ کیا ہم بیٹیاں اسی دن کے لیے پالتے ہیں اور ان کے جہیز کی ایک ایک چیز فرمائش پر بناتے ہیں کہ پھر کوئی ظالم آ کر اسے گولی مارے۔ اس ظلم کو ہم کیسے برداشت کریں۔‘
نسیم بی بی کا کہنا تھا کہ ’ہمیں انصاف چاہییں۔ ملزم کے تمام اہل خانہ کو شامل تفتیش کیا جائے کیوں کہ انہوں نے اس ظالم کو آمنہ پر تشدد سے نہیں روکا اور ملزم نے اسے قتل بھی خالہ اور باقی رشتہ داروں کی موجودگی میں کیا۔ رشتہ داروں نے پولیس کو بروقت اطلاع کیوں نہیں دی۔‘
آمنہ کی بہن سحرش کا الزام ہے کہ ہم پر دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ معاملے کو رفع دفع کریں اور قاتل کو معاف کر دیں لیکن کسی صورت خاموش نہیں بیٹھیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد میں کسی خاتون کا قتل ہوتا ہے تو ہر طرف شور مچ جاتا ہے لیکن یہاں 10 دن گزرنے کے باوجود کسی کے جان پر جوں تک نہیں رینگی۔ حکومت اور پولیس خاموش ہے۔
سحرش کے مطابق ’ملزم کے اہل خانہ سرمایہ دار ہیں وہ شاہ رخ جتوئی کی طرح ملزم کو بیرون  ملک فرار کروا سکتے ہیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ ملزم کو جلد از جلد قانون کے کٹہرے میں لایا جائے اور سزا دی جائے۔‘

شیئر: