Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پشاور این اے 31 کا فاتح کون ہوگا؟ غلام احمد بلور اور عمران خان آمنے سامنے

2013 میں عمران خان نے این اے 31 سے غلام بلور کو شکست دی تھی۔ فوٹو: اے ایف پی
 صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر پشاور سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 31 میں 16 اکتوبر کو ہونے والے ضمنی انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما غلام احمد بلور آمنے سامنے ہوں گے۔
ماضی میں این اے 1 کہلائے جانے والے اس حلقے کی انتخابی تاریخ انتہائی دلچسپ رہی ہے۔ عام انتخابات ہوں یا بلدیاتی الیکشن یہ حلقہ سب کی توجہ کا مرکز رہا ہے اور اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سابق وزرائے اعظم بے نظیر بھٹو اور عمران خان یہیں سے اپنی قسمت آزما چکے ہیں۔
تحریک انصاف کے ایم این اے شوکت علی کے استعفے کے بعد حلقہ این اے 31 سے 84 سالہ بزرگ سیاست دان غلام احمد بلور عوامی نیشنل پارٹی کے امیدوار ہیں جبکہ ان کے مقابلے میں سابق وزیراعظم عمران خان سمیت 7 امیدوار یہاں سے کھڑے ہوں گے۔
یہ حلقہ تین صوبائی حلقوں Pk 76 ،Pk 77 اور Pk 78 پر مشتمل ہے۔
الیکشن کمیشن کے مطابق اس حلقے میں 4 لاکھ 73 ہزار رجسٹرڈ ووٹرز موجود ہیں جس میں خواتین ووٹرز کی تعداد 2 لاکھ 10ہزار 861 ہیں۔ 
پشاور این اے 31 شہری علاقوں پر مشتمل ہے جس میں اندرون شہر، گلبہار، دلہ زاک روڈ، فقیر آباد اور حاجی کیمپ کے علاقے شامل ہیں۔

این اے 31 سے اب تک کون سے امیدوار کامیاب ہو چکے ہیں؟ 

سال 1988 سے لے کر 2018 تک ہونے والے دس انتخابات میں اسی حلقے سے عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) 3 مرتبہ، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) دو دو بار کامیاب ہو چکی ہے جبکہ ایک مرتبہ متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) بھی یہیں سے جیت چکی ہے۔

16 اکتوبر کو این اے 31 سے ضمنی انتخابات کروانے کا اعلان کیا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

سنہ 1988 کے الیکشن میں عوامی نیشنل پارٹی کے غلام احمد بلور پاکستان پیپلز پارٹی سے وابستہ رہنے والے سابق وزیر اعلٰی آفتاب شیرپاؤ سے ہارے تھے مگر پھر ضمنی انتخاب میں ان کی حمایت سے جیت گئے۔
سنہ 1990 میں غلام بلور کے مقابلے میں سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو میدان میں اتریں مگر غلام بلور نے دس ہزار کی برتری سے انہیں شکست دی اور قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔
پیپلز پارٹی اور اے این پی ایک مرتبہ پھر 1993 کے انتخابات میں آمنے سامنے آئی جس میں پیپلز پارٹی کے آغا ظفر علی شاہ نے غلام بلور کو  پانچ ہزار ووٹوں سے شکست دی ۔
سنہ 1997 کے انتخابی دنگل میں غلام احمد بلور نے  ایک مرتبہ پھر پیپلز پارٹی کے قمر عباس کو 14 ہزار ووٹوں سے شکست دی۔
سنہ 2002 میں متحدہ مجلس عمل کے شبیر احمد خان نے اے این پی کے عثمان بلور کو شکست دی کیونکہ غلام احمد بلور ڈگری کی شرط کے باعث الیکشن سے باہر ہوئے تھے۔
بعد میں سال 2008 کے الیکشن میں حاجی غلام احمد بلور نے پیپلز پارٹی کے ایوب شاہ کو 7 ہزار ووٹوں سے شکست دے کر کامیابی حاصل کی۔
 سنہ 2013 کے عام انتخابات میں عمران خان نے اس حلقے سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا اور غلام بلور کو 60 ہزار سے زائد ووٹوں سے شکست دی مگر بعد میں عمران خان کی چھوڑی ہوئی سیٹ پی ٹی آئی نہ جیت سکی اور غلام بلور پھر قومی اسمبلی تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔
سنہ 2018 کے جنرل الیکشن میں غلام بلور انتخابات میں کھڑے ہوئے اور پی ٹی آئی کے شوکت علی سے 45 ہزار ووٹوں سے شکست کھائی۔

این اے 31 سے اے این پی کے امیدوار تین مرتبہ الیکشن جیت چکے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

کس پارٹی کا کون سا امیدوار مضبوط ہے؟ 

اس مرتبہ پشاور سے قومی اسمبلی کے حلقہ 31 میں سیاسی منظرنامہ ماضی سے مختلف ہے۔ ایک جانب صوبے میں تحریک انصاف کی حکومت ہے تو عمران خان کا پلڑا بھی بھاری ہے مگر دوسری جانب پی ڈیم ایم جماعتوں کا مشترکہ امیدوار غلام احمد بلور ہے اور اسی لیے کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔
پشاور سے سینیئر صحافی طارق وحید نے اردو نیوز کو بتایا کہ غلام احمد بلور اپنی عمر کی وجہ سے سیاسی طور پر ریٹائر  ہو چکے ہیں اور انتخابی مہم میں کم ہی شریک ہوتے ہیں، زیادہ تر ان کی بہو ثمر بلور اور خاندان کے باقی افراد مہم سازی کا حصہ رہے ہیں۔
طارق وحید کا کہنا ہے کہ عمران خان ’امریکی سازش‘ کا بیانیہ عوام میں مقبول ہوچکا ہے اسی لیے امکان ہے کہ نوجوان طبقہ ان کو ووٹ دے گا مگر دوسری جانب مہنگائی اور صوبے میں بدانتظامی کی وجہ سے عوامی نیشنل پارٹی کو فائدہ ہو سکتا ہے۔
’عمران خان نے سنہ 2018 کا الیکشن بھی بھاری اکثریت سے جیتا تھا مگر جیتنے کے بعد سیٹ چھوڑ دی تھی، اسی وجہ سے ووٹرز مایوس  ہوئے تھے۔‘
واضح رہے کہ غلام احمد بلور پانچ مرتبہ قومی اسمبلی کے ممبر اور تین مرتبہ وفاقی وزیر رہ چکے ہیں۔
غلام احمد بلور پر سنہ 2013 میں خودکش حملہ بھی کیا گیا تھا جس میں وہ محفوظ رہے۔ ان کے چھوٹے بھائی بشیر احمد بلور کو 2012 اور بھتیجے ہارون بلور کو 2018 میں انتخابی مہم کے دوران شہید کیا گیا۔

شیئر: