Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ضمنی انتخابات: پاکستانی سوشل میڈیا کیا کرتا رہا؟

کراچی میں ضمنی انتخابات کے لیے قائم پولنگ کیمپ خالی دکھائی دے رہا ہے (فوٹو: احسن اعوان، ٹوئٹر)
ٹی 20 ورلڈ کپ کا پہلا اپ سیٹ، پیٹرول کی قیمت کم نہ ہونے پر حکومت پر تنقید اور آتی سردیوں کے تذکرے کے بجائے پاکستان میں اتوار کو قومی اسمبلی کے آٹھ اور صوبائی اسمبلی کے تین حلقوں پر ضمنی انتخاب کا ذکر ٹائم لائنز پر غالب رہا۔
الیکشن کمیشن کے نتائج کے مطابق ضمنی انتخاب کے دوران ٹرن آؤٹ تو کوئی خاص نہیں رہا، لیکن سوشل پلیٹ فارمز باالخصوص ٹوئٹر کے ٹرینڈز پینل سے واضح تھا کہ ضمنی انتخابات پر ہونے والی گفتگو دیگر موضوعات سے کہیں آگے ہے۔
’بائی الیکشن 2022‘ کے ہیش ٹیگ کے تحت کی گئی ہزاروں ٹویٹس ٹاپ ٹرینڈ رہا، لیکن یہ ضمنی انتخابات پر ہونے والی واحد گفتگو نہ تھی، بلکہ انتخابی عمل میں شریک سیاسی جماعتوں کے حامی دیگر ٹرینڈز کے ذریعے بھی مہم چلاتے رہے۔ یہ سلسلہ اتنا بڑھا کہ ایک وقت میں ٹوئٹر کے دس بڑے ٹرینڈز انتخابات کے متعلق رہے۔
اتوار کی دوپہر ووٹ ڈالنے کا عمل اپنے نصف کو پہنچا تو صبح سے اپنے اپنے امیدواروں کے حق اور دوسروں کے خلاف چلائی جانے والی مہم ووٹ کی اہمیت جتا کر ووٹرز کو باہر نکلنے کی اپیلوں تک جا پہنچی تھی۔

اسی دوران سابق حکمراں جماعت تحریک انصاف اور موجودہ حکمراں اتحاد کے حامیوں نے ایک دوسرے پر دھاندلی کے الزامات لگائے تو کہیں بیلٹ پیپرز کی تصاویر اور کہیں جھگڑوں کی ویڈیوز شیئر کرکے مخالفین پر نتائج پر اثرانداز ہونے کا الزام لگایا۔

تحریک انصاف سندھ کے صدر اور سابق وفاقی وزیر علی حیدر زیدی نے دعویٰ کیا کہ ان کی پارٹی کے رہنما پر پیپلزپارٹی کے رہنماؤں نے قاتلانہ حملہ کیا ہے، جس کی باقاعدہ شکایت درج کرا دی گئی ہے۔

پانچ بجے پولنگ کا عمل ختم ہوا تو اس سے پہلے ہی الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے اعلان کر دیا گیا کہ چھ بجے تک کوئی بھی انتخابی نتائج نشر نہیں کرے گا۔ اس اعلان کے باوجود سوشل ٹائم لائنز پر مخصوص ہینڈلز نے اپنے پسندیدہ نتائج کہیں کھلے لفظوں اور کہیں دبے لہجے میں بتائے، لیکن ماضی کی طرح اس مرتبہ نتائج دینے کا یہ ٹرینڈ زیادہ مقبول نہ ہوسکا۔
الیکشن نتائج کے لیے مرتب کردہ ریزلٹ مینیجمنٹ سسٹم نے چھ بجے نتائج دینا شروع کیے تو ٹائم لائنز پر الیکشن کمیشن کے سافٹ ویئر کے سکرین شارٹ گردش کرنا شروع ہوئے۔
ان سکرین شاٹس میں تحریک انصاف کے امیدواروں عمران خان، مہر بانو، فیصل نیازی اور دیگر کے ساتھ ساتھ مخالف امیدواروں کے حاصل کردہ ووٹوں کی تعداد اور باقی رہ جانے والوں حلقوں کے ساتھ ووٹنگ کا تناسب بھی نمایاں رہا۔
الیکشن کمیشن نے ایک موقع پر پنجاب کے قومی اسمبلی کے حلقوں سے متعلق نتائج شیئر کیے تو اس میں درج 28 فیصد کا ٹرن آؤٹ بہت سے افراد کی خصوصی توجہ کا مستحق ٹھہرا۔

اسی دوران کراچی کی دو نشستوں پر ڈالے گئے ووٹوں کی کم تعداد بھی نظرانداز نہ ہو سکی۔
کورنگی کراچی کی نشست پر ابتدائی 46 پولنگ اسٹیشن کا نتیجہ آیا تو رزلٹ مینیجمنٹ سسٹم کے مطابق ٹرن آؤٹ محض 13.19 فیصد تھا۔ اسے دیکھ کر بہت سے ٹویپس نے موقف اپنایا کہ ملک کے سب سے بڑے شہر میں پی ٹی آئی سربراہ عمران خان اور حکمراں اتحاد میں شامل ایم کیو ایم بھی ووٹرز کو متحرک کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔

خیبرپختونخوا میں قومی اسمبلی کے تین حلقوں پر انتخابات ہوئے جہاں پی ٹی آئی کی جانب سے دیگر امیدواروں کے بجائے پارٹی سربراہ میدان میں تھے۔ صوبائی دارالحکومت پشاور میں مخالف امیدواروں پر واضح برتری کے بعد مردان اور چارسدہ کی نشستوں پر مقابلہ سخت رہا تو عمران خان اور ان کے مدمقابل امیدواروں کے نتائج اور اس کا پس منظر بھی ٹائم لائنز پر زیربحث رہا۔

کراچی میں انتخابی عمل میں شریک سیاسی جماعتوں کی سرگرمی کو موضوع بنانے والوں نے لکھا کہ عمران خان کے علاوہ کوئی بھی یکسوئی کا مظاہرہ نہ کرسکا۔

ضمنی انتخابات کے دوران مختلف جماعتوں کی جانب سے اپنے امیدواروں کا انتخاب ٹویپس کا موضوع بنا تو کئی ایسے تھے جو موروثیت کی نشاندہی کرتے دکھائی دیے۔

پشاور سے قومی اسمبلی کی نشست پر واضح برتری سمیت دیگر نشستوں پر پارٹی چیئرمین کی لیڈ کو پی ٹی آئی ورکرز نے موضوع بنا کر اسے اپنے بیانیے کی کامیابی قرار دیا تو مخالف جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ٹویپس دیگر وجوہات کی نشاندہی کرتے رہے۔

عوامی نیشنل پارٹی کی خاتون رہنما اور صوبائی ترجمان ثمر بلور نے پارٹی کی شکست تسلیم کر کے تحریک انصاف کو مبارکباد دی، لیکن پارٹی امیدوار غلام احمد بلور سے منسوب ٹوئٹر اکاؤنٹ سے اعلان کیا گیا کہ وہ شکست تسلیم نہیں کریں گے اور مشورے کے بعد الیکشن کمیشن یا پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کریں گے۔

اتوار کو ہونے والے ضمنی انتخابات کے دوران پیپلزپارٹی نے کراچی سے ایک اور ملتان سے ایک نشست پر برتری حاصل کی تو تبصرہ کرنے والوں نے موقف اپنایا کہ ’ان انتخابات میں پیپلزپارٹی اصل فاتح رہی ہے۔‘
اس موقف سے اتفاق نہ کرنے والوں کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن کی نسبت تو پیپلزپارٹی کی کامیابی نمایاں ہے، لیکن 20 برس سے زائد اقتدار کے باوجود کراچی سے دوسری نشست نہ جیت سکنا اور دیگر پر ان کے امیدواروں کا بہت کم ووٹ لینا زیادہ حوصلہ افزا بات نہیں ہے۔
البتہ پیپلزپارٹی کی قیادت اور حامیوں نے پارٹی کے امیدواروں کی کامیابی پر خوب خوشی منائی۔

وزیرخارجہ اور پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپنی جماعت کے دو امیدواروں کو مبارکباد دی تو اسے 2018 میں چوری کردہ نشستوں کی واپسی قرار دیا۔

شیئر: