Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پی ڈی ایم کا بطور انتخابی اتحاد کوئی چانس ہے؟ ماریہ میمن کا کالم

ضمنی انتخابات کے نتائج کے بعد پی ڈی آیم کا سیاسی مستقبل غیرمستحکم نظر آ رہا ہے (فوٹو: شٹرسٹاک)
ملک کا سیاسی ماحول ہفتے کے آخر میں ضمنی انتخابات سے مزید متحرک ہو گیا ہے۔ یہ اور بات کہ کمپینز میں کوئی خاص نقل و حرکت نظر نہیں آئی اور الیکشن کا انعقاد بھی آخر وقت تک گومگو کی کیفیت کا شکار رہا۔
پی ڈی ایم حکومت کی طرف سے ایک دبی دبی سی کوشش یہ بھی تھی کہ یہ ضمنی انتخابات مزید ملتوی ہو جائیں۔ انتخابات کے نتائج کو دیکھ کر واضح ہو گیا ہے کہ پی ڈی ایم اتحاد یہ کوشش کیوں کر رہا تھا۔ 
ویسے ہی پی ٹی آئی عمران خان کے علاوہ اپنی شناخت کا دعوٰی نہیں کرتی مگر ضمنی انتخابات میں تو آٹھ میں سے سات حلقوں پر وہ امیدوار بھی خود تھے۔
ایک حلقہ شاہ محمود قریشی کے صاحبزادے کے پنجاب اسمبلی میں جانے کے بعد خالی ہوا جس پر ان ہی کی صاحبزادی امیدوار تھیں جن کو یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے کے مقابلے میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
کراچی اور ملتان کے حلقوں کے علاوہ باقی تمام حلقوں میں کم و بیش پنجاب کے ضمنی انتخاب کا ہی تسلسل نظر آیا۔ عمران خان کی مقبولیت برقرار ہے اور پی ڈی ایم کا سیاسی مستقبل غیرمستحکم نظر آتا ہے ۔
سوال یہ ہے کہ پی ڈی ایم کی سیاسی حکمت عملی اور مستقبل کا اگلا نقشہ کیا ہو گا؟ اس ضمن میں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ پی ڈی ایم اتحاد ان ضمنی انتخابات میں باقاعدہ سوچ سمجھ کر ایک منصوبہ بندی کے تحت شامل ہوا۔ پی ٹی آئی کے تمام استعفوں میں سے مٹھی بھر استعفے منظور کیے گئے۔
یہ نشستیں پورے ملک میں بکھری ہوئی ہیں جن پر قائدین یا نمایاں امیدوار سامنے لائے گئے۔

’نتائج سے عمران خان کی مقبولیت پر مہر ثبت ہو گئی ہے‘ (فوٹو: اے ایف پی)

پشاور، مردان، چارسدہ، فیصل آباد اور کراچی کا انتخاب کیا گیا۔ اے این پی ، جے یو آئی ایف، پی ایم ایل این، ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی نے الگ الگ نشستیں تقسیم کیں۔ اکٹھے یا ایک دوسرے کی حمایت سے مہم چلائی مگر نتیجے میں عمران خان کی مقبولیت پر مزید مہر تصدیق ثبت ہو گئی۔ اس کے بعد کیا پی ڈی ایم بطور انتخابی اتحاد کوئی چانس رکھتا ہے اور اگلے انتخاب میں کیا یہی حکمت عملی چلے گی؟ 
اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کی اپنی سیاسی حیثیت موجود ہے۔ اس کا اندازہ ان کے حاصل کردہ ووٹوں سے بھی ہوتا ہے مگر سوال یہ ہے کہ پی ڈی ایم کے لیے بطور اتحاد آپشنز اور کامیابی کے مدھم ہوتے امکانات کتنے رہ گئے ہیں اور اس کمی کے پیچھے بھی کئی عوامل اور وجوہات ہیں۔ 
سب سے پہلے تو سوال ہے بیانیے کا، ویسے ہی پی ٹی آئی بیانیے کی دوڑ میں دوسری جماعتوں سے کوسوں آگے ہے، اوپر سے ان جماعتوں کے اکٹھا ہونے کو مثبت نہیں منفی طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
وہ ووٹر جس نے ان جماعتوں کو برسوں ایک دوسرے سے برسرپیکار دیکھا ہو، اب جب ان کو اکٹھے دیکھتا ہے تو یا تو وہ ووٹ ہی نہیں ڈالتا یا پھر پی ٹی آئی کی طرف چلا جاتا ہے۔

’نتائج سے عمران خان کی مقبولیت پر مزید مہر تصدیق ثبت ہو گئی‘ (فوٹو: اے ایف پی)

ان حالات میں اکٹھے نظر آنے کا نقصان حلیف جماعتوں کے ووٹ بنک کے فائدے سے زیادہ ہی ثابت ہوا ہے۔ ضمنی انتخابات میں ووٹرز کو سامنے نظر آ رہا تھا کہ عمران خان ان تمام نشستوں سے دوبارہ استعفے ہی دیں گے۔ عام حالات میں بھی ایک ہی نشست رکھے جا سکتی ہے اور اب جبکہ اگلے الیکشن میں زیادہ وقت نہیں ان انتخابات کی اہمیت صرف علامتی اور سیاسی ہی ہے۔ اس کے باجود عام ووٹرز کی اکثریت نے اسمبلی میں جانے کے بجائے اسمبلی سے باہر رہنے والا نمائندہ چنا۔
ووٹرز کے ساتھ ساتھ سپورٹرز الیکشن مہم میں اہم ترین کردار ادا کرتے ہیں۔ کئی پارٹیوں کے اتحاد کی وجہ سے مقامی سطح پر اختلافات بھی ہیں اور کنفیوژن بھی۔ ویسے تو زیادہ حلقے پہلے ہی کسی ایک پارٹی کے ساتھ ہی منسلک رہے ہیں مگر جہاں کچھ ہزار بھی حلیف پارٹی کے ووٹر رہے ہیں وہاں بھی وہ اتحادیوں کے ساتھ چلنے میں متذبذب نظر آئے۔

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا سیاسی مستقبل مخدوش دکھائی دے رہا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

پنجاب کے پچھلے انتخابات میں تو مسلم لیگ ن کے سابق امیدواروں نے واضح طور پر پارٹی بدلنے والے امیدواروں کے خلاف مہم چلائی۔ آئندہ عام انتخابات میں بھی اس طرح کی کھچڑی نما صورت حال کا امکان ہے۔ 
پی ڈی ایم اتحاد کے رہنما حکومتی سطح پر بڑے بھائی چارے کے ساتھ آپریٹ کرتے نظر آ رہے ہیں۔ وفاقی کابینہ کی تعداد 80 تک پہنچ چکی ہے۔
وزیراعظم سندھ اور خیبرپختونخوا میں حلیف رہنماؤں کے شانہ بشانہ ترقیاتی سرگرمیوں میں آگے آگے ہیں۔
پی ٹی آئی اور عمران خان کی طرف سے مسلسل لفظی گولہ باری کے نتیجے میں بھی پی ڈی ایم کے لیڈر اکٹھے نظر آنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔ اس کے باوجود پی ڈی ایم کا بطور سیاسی اور انتخابی اتحاد مستقبل مخدوش ہے۔ اس کا ثبوت ضمنی انتخابات میں بھی نظر آ گیا ہے اور آگے بھی ایسا ہی متوقع ہے اس لیے وہ وقت دور نہیں جب پی ڈی ایم کی پارٹیاں واپس اپنی انفرادی حیثیت میں سیاسی سرگرمیاں شروع کردیں گی۔

شیئر: