Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پی ٹی آئی کا چیف الیکشن کمشنر کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں دوبارہ ریفرنس

سينيٹر اعجاز چوہدرى نے کہا کہ حکومت تبدیلی کے وقت ہارس ٹریڈنگ کی منڈی اور بیرونی مداخلت شامل تھی (فوٹو: ٹوئٹر)
پاکستان تحریک انصاف نے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی برطرفی کے لیے جوڈیشل کونسل میں ایک بار پھر ریفرنس دائر کر دیا ہے۔  
منگل کو دائر کیے گئے ریفرنس میں پی ٹی آئی کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر اپنی مبینہ جانب داری کے باعث اس عہدے کے اہل نہیں ہیں۔ تحريک انصاف کے 123 ارکان قومی اسمبلى نے استعفے ديے جو اليکشن کميشن کو بھجوائے گئے، لیکن چيف اليکشن کمشنر نے اقدامات نہیں کیے۔ انہوں نے اس سلسلے میں اقدامات نہ کر کے حلف کی پاسداری نہیں کی۔  
ریفرنس میں چیف الیکشن کمیشنر سے متعلقہ آڈیو لیکس کا بھی ذکر موجود ہے۔  
ریفرنس دائر کرنے کے بعد سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو میں پی ٹی آئی کے سينيٹر اعجاز چوہدرى نے کہا کہ حکومت تبدیلی کے وقت ہارس ٹریڈنگ کی منڈی اور بیرونی مداخلت شامل تھی، لیکن کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ 
ریفرنس میں کہا گیا کہ 9 اپریل کو قومی اسمبلی کے 125 ارکان اپنی نشستوں سے مستعفی ہوگئے تھے۔ اس وقت کے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے مستعفی اراکین کے استعفے قبول کرلیے، لیکن اس حوالے سے بھی الیکشن کمیشن کا امتیازی رویہ دیکھا گیا۔ 
ان کے استعفے 13 اپریل کو گزٹ میں شائع کر کے الیکشن کمیشن کو بھجوائے گئے، لیکن انہیں ڈی نوٹیفائی نہیں کیا گیا جب کہ موجودہ سپیکر قومی اسمبلی نے غیر قانونی اور غیر آئینی اقدام کرتے ہوئے 125 میں سے 11 ارکان کے استعفے منظور کر کے ای سی پی کو بھیجے جنہیں فوری طور پر ڈی نوٹیفائی کر دیا گیا۔ 
ریفرنس میں الزام لگایا گیا کہ چیف الیکشن کمشنر الیکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) کو متعارف کرانے کی مخالفت اس لیے کر رہے ہیں تاکہ پی ٹی آئی کے مخالفین انتخابات کے دوران دھاندلی کر سکیں۔ 
ریفرنس میں یہ دعویٰ بھی دہرایا گیا کہ وفاق میں پی ٹی آئی کی زیر قیادت حکومت کو 8 مارچ کو امریکی ڈپٹی انڈر سیکریٹری آف اسٹیٹ ڈونلڈ لو کی جانب سے جاری کردہ سائفر کی بنیاد پر شروع کی گئی سازش کے تحت گرایا گیا۔ 
اس سے قبل اگست میں بھی پی ٹی آئی نے سکندر سلطان راجا کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرتے ہوئے انہیں عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا۔ 
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے پی ٹی آئی کے خلاف ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ سنائے جانے کے ایک روز بعد چیف الیکشن کمشنر کے خلاف ریفرنس دائر کیا گیا تھا۔ 

پی ٹی آئی کے خلاف ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ سنائے جانے کے ایک روز بعد چیف الیکشن کمشنر کے خلاف ریفرنس دائر کیا گیا (فوٹو: اے ایف پی)

پی ٹی آئی رہنما بابر اعوان کے توسط سے دائر کیے گئے ریفرنس میں سپریم جوڈیشل کونسل سے استدعا کی گئی تھی کہ وہ مسلسل اور دانستہ طور پر کی گئی بد انتظامی پر چیف الیکشن کمیشن کو عہدے سے ہٹانے کا حکم دے۔ 
ریفرنس میں الزام لگایا گیا تھا کہ 29 جولائی کو پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے ایک وفد نے چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے دیگر چار اراکین سے ان کے دفتر میں ملاقات کی تاکہ ان پر ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ سنانے کے لیے دباؤ ڈالا جائے۔ 
درخواست میں یہ مؤقف اپنایا گیا کہ اس ملاقات کا نتیجہ تھا کہ الیکشن کمیشن نے 2 اگست کو فیصلہ سنانے کا فیصلہ کیا۔ 
ریفرنس میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی کو ریلیف فراہم کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو حکم دیا تھا کہ وہ تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ برابری کا سلوک کرے اور ان کے مقدمات کو محتاط انداز میں مستقل مزاجی کے ساتھ سنے اور مناسب وقت کے اندر ان کے کیسز کا فیصلہ کرے۔ 
اسلام آباد ہائی کورٹ کے مذکورہ بالا حکم کی تعمیل کے بجائے الیکشن کمیشن نے صرف پی ٹی آئی کے کیس کا فیصلہ سنایا اور دیگر جماعتوں کے مقدمات کو التوا میں رکھا جو کہ مکمل طور پر امتیازی سلوک ہے۔ 

شیئر: