Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سوات میں طالبان ہیں نہ سکول وینز پر حملے دہشت گردی تھی: آئی جی خیبرپختونخوا

فائرنگ کے واقعات کے بعد سوات میں طلبہ نے احتجاج کیا تھا (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے انسپکٹر جنرل آف پولیس معظم جاہ انصاری نے کہا ہے کہ سوات اور لوئر دیر میں سکولوں کی گاڑیوں پر حملے دہشت گردی کے واقعات نہیں تھے۔
جمعرات کو سوات میں صحافیوں سے گفتگو میں آئی جی پولیس معظم جاہ انصاری نے بتایا کہ 10 اکتوبر کو لوئر دیر اور گلی باغ میں ہونے والے واقعات سے ایسا تاثر ملا جیسے دہشت گردی ہوئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ گاڑی کے ڈرائیور حسین علی کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا ہے اور بہنوئی نے ساتھیوں سمیت ان پر حملہ کیا۔
آئی جی پولیس نے بتایا کہ قتل کرنے والے ڈرائیور کے جنازے اور احتجاج میں بھی شریک رہے جبکہ قتل کا ایک ملزم دبئی فرار ہو گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ واردات میں استعمال ہونے والی موٹر سائیکل اور آلہ قتل برآمد کر لیا گیا ہے۔
سوات اور ملحقہ علاقوں میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی سرگرمیوں کے حوالے سے انہوں نے واضح کیا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے، طالبان واپس چلے گئے ہیں اور خوف کے سائے چھٹ گئے ہیں۔
’تمام پہاڑوں پر پولیس کی چیک پوسٹس بنائی جا رہی ہیں۔‘
انہوں نے پورے پاکستان سے لوگوں کو سوات آنے کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ ’وہ آئیں اور برف باری دیکھیں، یہاں سنو فیسٹیول کا اہتمام بھی کیا جائے گا۔‘
خیال رہے کہ 10 اکتوبر کو سوات اور دیر میں پیش آنے والے دو الگ الگ واقعات میں سکول کی وین پر فائرنگ سے پانچ طلبہ زخمی ہوئے تھے۔
سوات پولیس کے مطابق فائرنگ کا واقعہ صبح کے وقت تحصیل چار باغ کے علاقے گلی باغ میں پیش آیا تھا جس میں موٹر سائیکل سواروں نے سکول وین کو نشانہ بنایا تھا جس سے ڈرائیور ہلاک ہو گیا تھا اوردو طلبہ زخمی ہوئے تھے۔
اسی روز ہی لوئر دیر کے علاقے دانوہ میں بھی سکول وین پر فائرنگ کی گئی تھی جس میں تین طلبہ زخمی ہوئے تھے۔

شیئر: