Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مہسا امینی کی ہلاکت کے 40 دن مکمل، ایران میں طلبہ کا احتجاج

مہسا امینی کی وفات کو 40 دن مکمل ہو گئے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی
ایران میں پولیس کی حراست میں خاتون مہسا امینی کی ہلاکت کے 40 دن مکمل ہونے پر کئی یونیورسٹیوں کے طلبہ نے سخت کریک ڈاؤن کے باوجود احتجاجی مظاہرے کیے ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے شہید چمران اہواز یونیورسٹی میں منگل کو طلبہ نے ایسے نعرے لگائے کہ ’ایک طالب علم جان تو دے سکتا ہے لیکن تذلیل برداشت نہیں کر سکتا۔‘
خیال رہے کہ گزشہ ماہ مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد ہونے والے مظاہروں میں سکولوں کی لڑکیاں اور خواتین پیش پیش رہی تھیں۔
بائیس سالہ مہسا امینی کا تعلق ایران کے کرد علاقے سے تھا اور وہ حجاب کے قانون کی خلاف ورزی کے الزام میں پولیس کی حراست میں رہنے کے دوران ہلاک ہو گئی تھیں۔ مہسا امینی کو اس وقت حراست میں لیا گیا جب وہ ایران کے دارالحکومت تہران میں اپنے بھائی سے ملنے آئی تھیں۔
انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ ایران کی سکیورٹی ایجنسیوں نے مہسا امینی کے خاندان کے افراد کو ان کی وفات کے 40 روز مکمل ہونے پر منعقدہ تقریبات میں شرکت سے منع کیا تھا اور خبردار کیا تھا کہ وہ لوگوں کو مہسا امینی کی قبر پر آنے کو نہ کہیں ورنہ ’انہیں اپنے بیٹے کی زندگی سے متعلق پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔‘
آج (بدھ کو) مہسا امینی کی وفات کو 40 دن مکمل ہو رہے ہیں جو کہ ایران میں موت پر روایتی سوگ کا آخری دن سمجھا جاتا ہے۔
کچھ ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ تہران کی شہید بہشتی یونیورسٹی، خواجہ نصیر طوسی یونیورسٹی اور شہید چمران یونیورسٹی آف اہواز میں طلبہ احتجاج کر رہے ہیں۔

مہسا امینی کو ایران کے دارالحکومت تہران میں حراست میں لیا گیا تھا۔ فوٹو: اے ایف پی)

اس سے قبل انسانی حقوق کے کارکنوں نے پیر کو الزام عائد کیا تھا کہ سکیورٹی فورسز نے شہید صدر گرلز سکول کی طالبات کو تشدد کا نشانہ بنایا۔
ایک سوشل میڈیا چینل ’1500تصویر‘ نے کہا کہ ’صدر ہائی سکول کی طالبات کی تلاشی لی گئی اور انہیں پیٹا گیا۔ اس واقعے میں زخمی ہونے والی ایک 16 سالہ طالبہ کو ہسپتال منتقل کیا گیا۔‘
’اس واقعے کے بعد طالبات کے والدین نے سکول کے باہر احتجاج کیا جس کے بعد سکیورٹی فورسز نے سکول کے نواح میں واقع گھروں پر فائرنگ کی۔‘
ایران کی وزارت تعلیم نے موقف اختیار کیا یہ سکول کی طالبات، ان کے والدین اور سکول انتظامیہ کے درمیان تنازع تھا۔
سکول کی انتظامیہ موبائل فون کے استعمال کے حوالے سے اپنے ضوابط پر عمل درآمد کا مطالبہ کر رہی تھی۔

شیئر: