Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’اب کوئی خوف نہیں،‘ مہسا امینی کی ہلاکت پر ایران میں احتجاج چوتھے ہفتے میں داخل

وسطی تہران کی شاہراہ پر نصب بینرپر درج ہے 'ہم ڈرنے والے نہیں، ہم لڑیں گے'۔ فوٹو عرب نیوز
ایران میں کرد خاتون مہسا امینی کی ہلاکت پر احتجاجی تحریک چوتھے ہفتے میں داخل ہو گئی ہے ، تحریک میں سکولوں کی طالبات اور عام مزدور ہڑتالوں کے ذریعے شامل ہو چکے ہیں۔
اے ایف پی نیوز ایجنسی کے مطابق ہفتے کے روز بھی ایران کی سڑکوں پر جھڑپیں ہوتی ہوئی نظر آئی ہیں اور کریک ڈاؤن کی مخالفت کے باعث احتجاج میں اضافہ ہو رہا ہے۔
واضح رہے کہ 13 ستمبر کو ڈریس کوڈ کی خلاف ورزی کے الزام میں ایرانی کی خصوصی فورس  کے ہاتھوں گرفتار ہونے والی مہسا امینی کی 16 ستمبر کو موت واقع ہو گئی تھی جس کے بعد ملک بھر میں ہنگامے پھوٹ پڑے تھے۔
ایران کے صوبہ کردستان میں ہفتے کے روز مہسا امینی کے آبائی شہر سقز کے ایک سکول میں طالبات کو ’عورت، زندگی، آزادی‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے سنا گیا۔
احتجاجی جلوس میں سکول کی طالبات کے ایک گروپ کو سڑکوں پر اپنے سر کے سکارف  لہراتے ہوئے اور قینچی سے اپنے بال کاٹتے ہوئے  دیکھا گیا ہے اور جو نعرے لگا رہی تھیں کہ اب ہم خوفزدہ نہیں۔
کردستان کے شہر سنندج میں طالبات کے ایک گروپ کو بھی اسی طرح کے نعرے لگاتے ہوئے ایک ویڈیو میں سنا گیا ہے جس میں وہ سروس سے سکارف اچھال رہی ہیں۔
احتجاجی مظاہرین دیگر لوگوں کو راتوں رات دوبارہ سڑکوں پر آنے کے مطالبات کر رہے ہیں۔

کرمان شہر میں احتجاج کی ویڈیو میں ڈرائیور گاڑیوں کے ہارن بجا رہے ہیں۔ فوٹو روئٹرز

اے ایف پی نیوز ایجنسی کی تصدیق شدہ آن لائن تصاویر کے مطابق وسطی تہران سے گزرنے والی شاہراہ پر بینر نصب ہے جس پرالفاظ درج ہیں کہ ہم اب ڈرنے والے نہیں ، ہم لڑیں گے۔
مزید برآں بڑے پیمانے پر شیئر کی جانے والی احتجاجی مظاہرے کی  ایک اور ویڈیو میں ایک شخص  سڑک پر نصب سرکاری بل بورڈ پر درج الفاظ  'پولیس عوام کے خادم ہیں'  کو  'پولیس عوام کے قاتل ہیں' میں تبدیل کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
ناروے میں مقیم کردوں کے حقوق  کی لئے کام کرنے والے ایک گروپ ہینگاو کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ کردستان صوبے کے سقز، سنندج اور دیواندارریہ شہروں  کے علاوہ  مغربی آذربائیجان کے مہاباد شہر میں بھی اس تناظر میں بڑے پیمانے پر ہڑتالیں ہو رہی ہیں۔

سکول کی طالبات 'عورت، زندگی، آزادی' کے نعرے لگا رہی ہیں۔ فوٹو روئٹرز

دریں اثنا ایک سوشل میڈیا  چینل کی جانب سے شیئر کی گئی ویڈیو میں سنندج شہر کی ایک سڑک پر مظاہرین کی سیکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپ کے دوران گولیوں کی آوازیں سنی جا سکتی ہیں اور چینل نے بتایا ہے کہ جنوبی شہر شیراز میں بھی احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں۔
سوشل میڈیا  چینل نے تہران کے مغرب میں واقع شہر کرج اور جنوبی شہر کرمان میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں کی ویڈیوز بھی شیئر کی ہیں جہاں درجنوں ڈرائیور احتجاجی طور پر گاڑیوں کے ہارن بجا رہے ہیں تاہم اے ایف پی ان فوٹیج کی تصدیق کرنے سے قاصر  ہے۔
اوسلو میں ایران ہیومن رائٹس کے ایک گروپ  کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں کم از کم 92 مظاہرین ہلاک کئے  گئے ہیں۔
ایران کے ایوان صدر کی ویب سائٹ کے حوالہ سے بیان میں کہا گیا ہے کہ بدخواہوں کی تمام تر کوششوں کے باوجود باہمت اور محنتی عوام آنے والے مسائل پر اتحاد اور ہم آہنگی کے ساتھ قابو پالیں گے۔

شیئر: