Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’اکثر گستاخی کے ملزمان کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں ہوتی‘، توہین مذہب کا مقدمہ خارج

فیصلے کے مطابق ایک شخص کو اس کے خوابوں کے لیے سزا نہیں دی جا سکتی (فائل فوٹو)
لاہور ہائیکورٹ نے ایک شہری کے خلاف توہین مذہب کا مقدمہ خارج کرنے کاحکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’کسی ایسے شخص کا ٹرائل نہیں کیا جا سکتا جو فاتر العقل ہو اور اپنا دفاع نہ کرسکے۔‘
سنیچر کو لاہورہائیکورٹ کے جسٹس طارق سلیم شیخ نے شہری پر میانوالی کے تھانے میں توہین مذہب کا درج مقدمہ خارج کرنے کا تحریری فیصلہ جاری کیا۔
جسٹس طارق سلیم شیخ نے قراردیا کہ پولیس آفیسر کو تفتیش کرتے وقت ملزم کی ذہنی حالت کے درست ہونے کا تعین کر لینا چاہیے۔ جسٹس طارق سلیم شیخ کے 11 صفحات کے تحریری فیصلے کو عدالتی نظیر قرار دیا گیا ہے۔
جسٹس طارق سلیم شیخ نے فیصلہ میں لکھا ہے کہ ’ذہنی حالت پر شک کی صورت میں پولیس کو مجاز فورم سے نفسیاتی تشخیص کرانی چاہیے۔ یہ اکثر ہوتا ہے کہ گستاخی کے ملزمان کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں ہوتی۔‘
فیصلے کے مطابق ’ایک شخص ہر رات کئی خواب دیکھ سکتا ہے جس پر اس کا اختیار نہیں ہوتا۔‘
فیصلے میں سگمنڈ فرائیڈ کی ایک تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ سگمنڈ فرائڈ کے مطابق خواب خواہشات ہوتی ہیں جنہیں ہم حقیقی زندگی میں پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کئی بار دماغ بدبخت خواہشات کو دباتا ہے لیکن وہ عجیب طرح خواب میں آ جاتی ہیں۔
جسٹس طارق سلیم شیخ نے فیصلے میں لکھا کہ ایک شخص کو اس کے خوابوں کے لیے سزا نہیں دی جا سکتی۔ پاکستان میں قانون ذہنی بیمار افراد کا تحفظ کرتا ہے۔
ذہنی بیمار افراد کو سزا سے بچانا چاہیے اور ان کاعلاج ہونا چاہیے۔

شیئر: