Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

باسمتی چاول اور ’خوشبو کی ملکہ‘: عبدالخالق بٹ کا کالم

لفظ ’باسمتی‘ کی اصل سے متعلق ایک خیال ہے کہ یہ دو لفظوں ’واس اور مایپ‘ سے مل کر بنا ہے۔ (فوٹو: ٹوئٹر)
گر عزمِ مُصمم ہو اور جہدِ مسلسل بھی
صحرا میں نکل آئے گلزار کی گنجائش
پتھروں میں پھول کِھلانے اور صحرا کو گلزار بنانے کی باتیں اب تک شاعرانہ تخیل کے زمرے میں داخل تھیں مگر ایک سعودی باشندے نے ریگ زار عرب میں چاول کاشت کرکے ایک جہان کو حیران کر دیا ہے۔
یہ ماہرِ زراعت یوسف عبدالرحمن بندقجی ہیں اور ان کا کارنامہ اس لیے بھی غیر معمولی ہے کہ چاول کو کسی بھی دوسری فصل کے مقابلے میں زیادہ پانی درکار ہوتا ہے۔ 
عربی زبان میں ’چاول‘ کو ’الأَرُزُّ‘ یا ’أَرُزُ‘ کہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب سرزمینِ عرب میں چاول کی کاشت ہی نہیں تھی تو یہ نام کہاں سے آیا؟
اس سوال کا جواب جاننے سے پہلے ضروری ہے کہ کچھ احوال ’چاول‘ کا بیان کردیا جائے ممکن ہے کہ اس کے ساتھ ہی عربی میں ’أَرُزُ‘ کے وجود  کا معمہ بھی حل ہوجائے۔
’چاول‘ ہندی لفظ ہے، جس کی دوسری صورت ’چانول‘ ہے۔ عام طور پر لفظ چاول کا اطلاق اُس سفید غلّے یا دانے پر ہوتا ہے جو دھان کا چھلکا الگ کرنے پر برآمد ہوتا ہے۔
تاہم لغت نگاروں کے نزدیک ’چاول‘ کا اطلاق اناج کی دوسری صورتوں مثلاً چڑچٹے کے چاول، کنگنی کے چاول اور دھنئے کے چاول وغیرہ پر بھی ہوتا ہے۔ 
نیز کسی نبات یا غلے سے نکالے گئے زیرہ یا گری کے علاوہ کسی میوے وغیرہ کے تراشے یا کترے ہوئے ٹکڑے بھی ’چاول‘ کی تعریف میں داخل ہیں۔
برصغیر میں وزن کے اعشاریہ نظام سے قبل جو نظام رائج تھا اُس کی بنیادی اکائی یہی ’چاول‘ تھا۔ چاول کے آٹھ دانے ’ایک رتی‘ کے برابر اور آٹھ رتی کا ’ایک ماشہ‘ ہوتا تھا۔ جب کہ بارہ ماشے کا ’ایک تولہ‘ اور پانچ تولہ ’ایک چھٹانک‘ کے مساوی تھا۔ پھر چار چھٹانک کا ’ایک پاؤ‘ اور چار پاؤ یا سولہ چھٹانک کا ’ایک سیر‘ کہلاتا جب کہ چالیس سیر کو ’ایک من‘ کہا جاتا تھا۔ 

لفظ ’باسمتی‘ میں ’باس‘ بمعنی خوشبو ہے جب کہ ’متی‘ کے معنی ’ملکہ‘ کے ہیں۔ یوں باسمتی کا مطلب ہوا ’خوشبوکی ملکہ‘۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

اس سے پہلے کہ آگے بڑھیں اس تولہ ماشہ کی رعایت سے شاعر ’نین سکھ‘ کا شعر ملاحظہ کریں:
وہ جو اک تولا کئی ماشہ تھی یاری تم سے
رتی بھر بھی نہ رہا اس میں کچھ آثار کہیں
چاول‘ ایک مقبول اناج ہے، جو آٹھ ارب انسانوں کی اس دنیا میں نصف باشندگان جہان کی عام خوراک ہے۔ اس کی سب سے مشہور قسم کا نام ’باسمتی‘ ہے۔ اس نام پر پاک وہند کے درمیان جی آئی ٹیگ (جیوگرافک اِنڈیکیشن ٹیگ) کے حصول کا تنازع پایا جاتا ہے۔ ہمیں اس تُو تکرار سے کوئی غرض نہیں کہ ہمیں ’باسمتی‘ کے لفظی معنی سے دلچسپی ہے۔
لفظ ’باسمتی‘ کی اصل سے متعلق ایک خیال ہے کہ یہ دو لفظوں ’واس اور مایپ‘ سے مل کر بنا ہے، اس میں ’واس‘ کے معنی ’مہک یا خوشبو‘ اور ’مایپ‘ کے معنی ’بہت گُتھے ہوئے‘ کے ہیں۔ بعد میں یہ لفظ ’مایپ متی‘ ہوا جو بگڑ کر ’باسمتی‘ ہوگیا اور خوشبودار چاول کا نام قرار پایا۔
ایک اور نقطۂ نظر کے مطابق لفظ ’باسمتی‘ میں ’باس‘ بمعنی خوشبو ہے جب کہ ’متی‘ کے معنی ’ملکہ‘ کے ہیں۔ یوں باسمتی کا مطلب ہوا ’خوشبوکی ملکہ‘۔ 
باسمتی کی ان دو تعریفوں میں واس یا باس بمعنی خوشبو تک تو بات درست ہے، تاہم جُزثانی ’متی‘ کے معنی سے اتفاق نہیں اس لیے کہ ہندی زبان میں ’متی‘ بطور لاحقہ آتا ہے اور اردو کے ’والا‘ اور فارسی کے ’دار‘ یعنی ’رکھنے والا‘ کے معنی دیتا ہے۔ اس کو ہندی کی بہت سی تراکیب میں دیکھا جاسکتا ہے مثلاً ذہین یا عقل والا ’گیان متی‘ کہلاتا ہے تو حُسن والا ’روپ متی‘ پکارا جاتا ہے۔
دیکھیں عشرت قادری کیا کہہ رہے ہیں
وہ چندر کرن وہ روپ متی وہ میری کویتا میری غزل
میلے میں کچھ ایسے بچھڑی ڈوب گئی اندھیاروں میں
اس وضاحت کے ساتھ اب ’باسمتی‘ کے معنی پر غور کریں تو سمجھنے میں دیر نہیں لے گی کہ باسمتی‘ کے لفظی معنی ’خوشبو والا‘ یا ’خوشبودار‘ کے ہیں۔ جب کہ چاول کی اس خاص قسم کو یہ نام اس کی اشتہاء انگیز خوشبو کے سبب ملا ہے۔

’چاول‘ ایک مقبول اناج ہے، جو آٹھ ارب انسانوں کی اس دنیا میں نصف باشندگان جہان کی عام خوراک ہے۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

برسبیلِ تذکرہ عرض ہے کہ اوپر بیان کردہ لفظ ’واس اور باس‘ عملاً ایک ہی لفظ کی دو صورتیں ہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ’واؤ‘ اور ’ب‘ دونوں قریب المخرج حروف ہیں۔ اسی سبب سے بہت سی زبانوں میں یہ دونوں آوازیں باہم بدل جاتی ہیں۔ آپ مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ ’بیوپاری‘ کو ’ویپاری‘ اور ’بن‘ یعنی جنگل کو ’ون‘ بھی کہا جاتا ہے۔ 
سنسکرت کے وہ الفاظ جو ان حروف پر مشتمل ہوں کسی کو لفظ بولتے سنیں تو فیصلہ مشکل ہوجاتا ہے کہ ادا کیے گئے لفظ میں ’ب‘ برتا گیا ہے یا ’واؤ‘ استعمال ہوا۔ بقول محمد حسین آزاد:
بڑے بڑے پنڈتوں کو دیکھا جب سنسکرت الفاظ بولتے ہیں تو نہیں کُھلتا کہ ’ب‘ بول گئے یا ’و‘۔
خیر اب واپس ’چاول‘ پر آتے ہیں جو انگریزی میں rice/ ’ رائس‘ کہلاتے ہیں۔ لفظ ’rice‘ یونانی میں اوریزا (oryza) ہے، اور اس کے زیر اثر لاطینی میں بھی تقریباً اوریزا (oriza) ہے، تاہم لاطینی oriza  اطالوی میں ریسو (riso) اور فرانسیسی میں رِس (ris) ہے، جو انگریزی میں پہنچ کر ’rice/ رائس‘ ہوگیا۔ 
یورپ کی بہت سی زبانوں میں چاول کے لیے جو الفاظ مستعمل ہیں وہ لہجوں کے مختلف ہونے کے باوجود اپنی مشترک اصل کا پتا دیتے ہیں۔ 
اب آپ عربی کے ’أَرُزُّ‘ کے ساتھ یونانی کے ’اوریزا/ oryza‘ پر غور کریں، دونوں کو بہت حد تک ہم آواز پائیں گے۔ گویا یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ یورپ میں اس لفظ کا چلن عربی کے طفیل ہوا ہے۔
تاہم اس حقیقت سے صرف نظر کیا جاتا ہے اور یورپی زبانوں میں چاول کے لیے رائج لفظ (لفظوں) کا رشتہ ’ہند ایرانی گروہ‘ کی اہم رُکن پشتو سے جوڑا جاتا ہے۔
پشتو میں چاول کو’روجی‘ کہتے ہیں، اس کی قدیم فارسی صورت ’بریزی‘ ہے۔ جب کہ ان دونوں کی اصل سنسکرت کا ’وریگی/vrihi  ہے۔ 
اس سے انکار نہیں کہ سنسکرت میں چاول کو ’وریگی/vrihi‘ کہتے ہیں، تاہم سنسکرت ہی میں چاول کے لیے ایک لفظरुच्य/ رُسیا‘ بھی ہے۔

پشتو میں چاول کو’روجی‘ کہتے ہیں، اس کی قدیم فارسی صورت ’بریزی‘ ہے۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

اب غور کریں تو اسरुच्य/ رُسیا‘ کو آواز و معنی میں اطالوی ریسو/riso، فرانسیسی رِس/ris‘ اور انگریزی کے ’rice/ رائس‘ سے قریب پائیں گے۔ پھر اس بات کا بھی امکان ہے کہ عربی ’أَرُزُّ‘ کی اصل بھی یہی ’رُسیا‘ ہو۔ 
افریقہ کی ایک اہم زبان ’یوروبا/Yoruba‘ ہے۔ یہ افریقی ملک نائیجیریا کے مغربی اور وسطی علاقوں میں بولی جاتی ہے۔ ’یوروبا‘ میں چاول کو ’اریسی/iresi‘ کہتے ہیں، جب کہ ایتھوپیا کے ’اومورو‘ خطے کی ’اومورو‘ زبان میں چاول کو ’رُوزی/ruuzii‘ کہا جاتا ہے۔ 
افریقی زبانوں کے ان دونوں  الفاظ کو دیکھیں آپ ’اریسی‘ کو عربی ’أَرُزُّ‘ کے قریب اور ’رُوزی‘ کو سنسکرت کے ’رُسیا‘ کے نزدیک پائیں گے۔ 
حاصل کلام یہ ہے کہ بے شک انگریزی سمیت یورپ کی بیشتر زبانوں میں چاول کے لیے مستعمل لفظ کی اصل سنسکرت زبان سے متعلق ہے، تاہم اس لفظ کو یورپ بلکہ افریقہ کی بھی بعض زبانوں تک پہنچانے میں کا فریضہ عربی زبان نے انجام دیا ہے۔

شیئر: