Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایڈوائس منظوری کے لیے صدر کے پاس، حکومت نے جنرل عاصم منیر کی ریٹائرمنٹ منجمد کر دی

آئین کے آرٹیکل 48 کے سیکشن اے کے تحت صدرِ مملکت وزیراعظم یا وفاقی کابینہ کی تجویز کے مطابق عمل کرنے کے پابند ہیں (فوٹو: آئی ایس پی آر)
وفاقی حکومت نے جنرل عاصم منیر کی ریٹائرمنٹ کو منجمد کرتے ہوئے انہیں آرمی چیف تعینات کرنے کا فیصلہ کیا۔ وفاقی کابینہ اجلاس کے دوران جنرل عاصم منیر کی ریٹائرمنٹ منجمد کرنے کی سمری کی منظوری لی گئی۔  
وفاقی وزیرداخلہ رانا ثنا اللہ کے مطابق وفاقی حکومت کے پاس آرمی ایکٹ کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ کسی بھی آرمی آفیسر کی ریٹائرمنٹ کو فریز کر سکتے ہیں یا اس کی سروس میں توسیع کر سکتے ہیں۔‘  
انہوں نے مقامی میڈیا کو دیے گئے بیان میں کہا کہ ’آج کابینہ نے پہلے یہ فیصلہ کیا کہ نومبر کو ریٹائر ہونے والے جنرل عاصم منیر کی ریٹائرمنٹ کو آرمی چیف تعینات ہونے تک فریز کر دیا ہے، اس کے بعد ان کو ترقی کی منظوری دی گئی ہے اور پھر  کو آرمی چیف کے لیے مقرر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘
آرمی قوانین کے ماہر لیفٹیننٹ کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کے مطابق ’وفاقی حکومت نے صدر مملکت کی جانب سے سمری کی منظوری کی تاخیر کی صورت میں قانونی تحفظ فراہم کیا ہے۔ وفاقی حکومت کے پاس یہ اختیار موجود ہے کہ کسی آرمی آفیسر کی مدت ملازمت میں ایک سال تک توسیع کر سکتی ہے یا ان کی ریٹائرمنٹ فریز کر سکتی ہے۔‘  
انہوں نے کہا کہ یہ آرمی میں تقرری اور تعیناتیوں کی رولز میں موجود ہے کہ وفاقی حکومت منجمند یا توسیع کر سکتی ہے۔ 
آئین کے آرٹیکل 243 کے تحت صدرِ مملکت وزیراعظم کی تجویز کردہ ناموں کی منظوری دیتے ہوئے ان تقرریوں کی منظوری دیں گے۔
صدر مملکت سے خطرہ کیا ہے؟ 
صدرِ مملکت عارف علوی کا تعلق تحریک انصاف سے رہا ہے، شاید اسی لیے سابق وزیراعظم عمران خان نے نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ’آرمی چیف کی تعیناتی کے معاملے پر صدرِ مملکت ان سے رابطے میں ہیں اور وہ ان سے مشاورت کریں گے۔‘ 
انہوں نے کہا تھا کہ ’میں اور صدر آئین کے اندر رہتے ہوئے اس معاملے پر کھیلیں گے۔‘ 
اس انٹرویو کے بعد حکومتی حلقوں میں ایک خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ صدرِ مملکت اس معاملے پر کوئی رخنہ ڈالنے کی کوشش کریں گے۔ 

عمران خان نے کہا تھا کہ ’میں اور صدر آئین کے اندر رہتے ہوئے اس معاملے پر کھیلیں گے۔‘  (فوٹو: اے ایف پی)

آئین کے آرٹیکل 48 کے سیکشن اے کے تحت صدرِ مملکت وزیراعظم یا وفاقی کابینہ کی تجویز کے مطابق عمل کرنے کے پابند ہیں، تاہم وہ 15 روز کے اندر وزیراعظم یا وفاقی کابینہ کو ایڈوائس نظر ثانی کے لیے واپس بھیج سکتے ہیں۔ 
صدرِ مملکت نظرثانی شدہ یا دوبارہ بھیجی گئی اس ایڈوائس کو 10 روز کے اندر منظور کرنے کے پابند ہوں گے۔ آئین کا آرٹیکل 48 صدرِ مملکت کو اس حوالے سے بھی بااختیار بناتا ہے کہ ان کے اس اقدام کو کہیں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ 
اس حوالے سے کرنل (ر) انعام الرحیم نے کہا کہ ’صدر آرٹیکل 48 کا استعمال کسی قانون کی منظوری دیتے وقت تو کر سکتے، لیکن کسی تعیناتی کے معاملے میں صدر نظر ثانی کے لیے سمری کو واپس نہیں بھیج سکتے۔‘  
انہوں نے کہا کہ ’ماضی میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ صدر مملکت کسی تعیناتی پر نظر ثانی کے لیے سمری کو واپس بھیجیں۔‘ 

شیئر: