Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عمران خان کا اعلان، ایم پی ایز نے جیسے سکھ کا سانس لیا ہو

سینیئر وزیر میاں اسلم اقبال نے بتایا کہ ’ہماری جنگ ابھی بھی جاری ہے۔‘ (فائل فوٹو: اے پی پی)
پاکستان میں آج کل سیاست کا مرکز پنجاب کا دارالحکومت لاہور ہے۔ لانگ مارچ کے دوران حملے کے بعد چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے اپنے گھر زمان پارک میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں تو تحریک انصاف کی تقریباً ساری قیادت بھی لاہور میں ہی نظر آ رہی ہے۔ پی ٹی آئی کی جارحانہ سیاست میں جمعہ 2 دسمبر کا دن بہت اہم سمجھا جا رہا تھا۔
پارٹی چیئرمین عمران خان نے راولپنڈی جلسے میں جب ’اسمبلیوں سے نکلنے‘ کا اعلان کیا تو اس کے بعد جمعہ کے روز پنجاب کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس طلب کیا گیا تھا جس میں ’حتمی فیصلہ‘ ہونا تھا۔
جمعے کے روز زمان پارک میں 10 بجے کے بعد ہی تحریک انصاف کی تقریباً ساری قیادت ہی پہنچنا شروع گئی۔ پرویز خٹک، اسد عمر، فواد چوہدری، علی زیدی، علی امین گنڈا پور، حماد اظہر اور اتحادی شیخ رشید سب باری باری عمران خان کی رہائش گاہ پر پہنچے تو درجنوں صحافی جو پچھلے کئی روز سے زمان پارک میں ’مستقل ڈیوٹی‘ پر ہیں تمام رہنماؤں سے ایک ہی سوال پوچھ رہے تھے کیا آج پنجاب اسمبلی توڑنے کا فیصلہ ہو جائے گا؟
تقریباً سبھی رہنماؤں نے ایک طرح کا ہی جواب دیا کہ اس کا فیصلہ عمران خان کریں گے۔ جب تحریک انصاف کی قیادت زمان پارک میں اکھٹی ہو رہی تھی عین اسی وقت سہ پہر دو بجے ایوان وزیر اعلیٰ 90 شاہراہ قائداعظم کے بڑے ہال میں تحریک انصاف کی پارلیمانی پارٹی کے ایم پی ایز بھی اکھٹے ہو رہے تھے۔ رہنماؤں کی نسبت اراکین اسمبلی کے چہرے تھوڑے زیادہ تنے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔  
جب ان سے بھی وہی سوال کیا جاتا کہ کیا اسمبلیاں توڑی جا رہی ہیں تو زیادہ تر ایم پی ایز بغیر بولے چہرے کے تاثرات سے یہ بتاتے کہ ہمیں نہیں پتا۔
دوسرا سوال جس پر کئی اراکین چہروں پر مسکراہٹ نمودار ہو جاتی کہ وہ خود کیا سمجھتے ہیں کیا اسمبلی توڑی جانی چاہیے؟ تاہم وہ کوئی جواب دینے سے گریز ہی کرتے رہے۔  
ایک طرف جہاں تحریک انصاف کا اکٹھ جاری تھا تو مسلم لیگ ن کے کمیپ میں بھی خاموشی دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ وزیراعظم شہباز شریف صبح 9 بجے ہی صوبائی دارالحکومت میں لینڈ کر چکے تھے۔ انہوں نے پارٹی کے دفتر 96 ایچ ماڈل ٹاون میں ایک اجلاس کی صدارت کی جس میں تحریک انصاف کی طرف سے متوقع طور پر پنجاب اسمبلی توڑنے کے سیاسی مضمرات کا جائزہ لیا گیا۔
لیگی رہنما عطا اللہ تارڑ نے بتایا کہ ’ہم نے ہر پہلو سے جائزہ لیا اور ہم ہر طرح کی صورت حال کے لیے ذہنی طور پر تیار تھے۔ ہمیں اس بات کا بھرپور اندازہ تھا کہ عمران خان کو قومی اسمبلی چھوڑنے کی جو سیاسی قیمت ادا کرنی پڑی ہے اب پنجاب اسمبلی سے متعلق ایسا کوئی فیصلہ لیتے ہوئے وہ سو بار سوچیں گے۔‘  
پھر وہ لمحہ آ ہی گیا جب عمران خان کی صدارت میں تحریک انصاف کی پنجاب کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس شروع ہوا۔ عمران خان نے بتایا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب نے اسمبلی سے متعلق کوئی بھی فیصلہ کرنے کا اختیار انہیں دے دیا ہے۔ تو وہ فوری طور پر کسی بھی انتہائی فیصلے کو موخر کر رہے ہیں، لیکن یہ آپشن رد نہیں کیا گیا۔

کئی ایم پی ایز کہہ رہے تھے کہ ’عمران خان ہمارے لیڈر ہیں وہ جو بھی فیصلہ کریں گے ہمیں قبول ہے۔‘ (فائل فوٹو: پنجاب اسمبلی)

اس باضابطہ اعلان کے بعد وزیر اعلیٰ آفس میں اکھٹے ہوئے اراکین اسمبلی کے چہروں پر اطمینان عیاں تھا۔ اجلاس کے بعد جب ایم پی ایز باہر نکلے تو چہروں پر اب بھی مسکراہٹ تھی، لیکن اب اس کا تاثر مختلف دکھائی دے رہا تھا۔ ایسے محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے اراکین اسمبلی نے سکھ کا سانس لیا ہو۔ 
کئی ایم پی ایز اب کھل کر بات کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ ’عمران خان ہمارے لیڈر ہیں وہ جو بھی فیصلہ کریں گے ہمیں قبول ہے۔ ہم نے کوئی بھی فیصلہ کرنے کا حق ان کو دے رکھا ہے۔‘  
سینیئر وزیر میاں اسلم اقبال نے بتایا کہ ’ہماری جنگ ابھی بھی جاری ہے۔ اور ہم سب عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ وہ جو بھی، جب بھی اور کوئی بھی حکم دیں گے ہم لبیک کہیں گے۔‘ 

شیئر: