Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’مزید ایرانی شہریوں کو جلد سزائے موت سنائے جانے کا خطرہ ہے‘

اقوام متحدہ کے مطابق اب تک کم از کم 14 ہزار افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے (فوٹو: اے ایف پی)
انسانی حقوق کی تنظیموں نے کہا ہے کہ ایرانی حکومت کی طرف سے ملک میں احتجاجی مظاہروں میں حصہ لینے والے متعدد افراد کو جلد سزائے موت سنائے جانے کا خطرہ ہے۔
عرب نیوز کے مطابق مہسا امینی کی پولیس کی حراست میں ہلاکت کے بعد گزشتہ تین ماہ سے مظاہرے کیے جا رہے ہیں جو 1979 میں شاہ ایران کی حکومت کے خاتمے کے بعد موجودہ ایرانی حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج بن چکے ہیں۔
 ایران نے ان احتجاجی مظاہروں کو ’ہنگامے‘ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس کے دشمن ان مظاہروں کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔
ایرانی عدلیہ نے کہا ہے کہ اب تک 11 مظاہرین کو سزائے موت سنائی گئی ہے، لیکن انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے تقریباً 12 مزید افراد کو سزائے موت سنائے جانے کا خدشہ ہے۔
ایران میں نیویارک کے سینٹر فار ہیومن رائٹس ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہادی گائمی نے کہا کہ ’جب تک بیرونی ممالک ایران کو بڑی سفارتی اور معاشی قیمت ادا کرنے پر مجبور نہیں کرتے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ ایران کو ان ہلاکتوں کا گرین سگنل دے رہے ہیں۔‘
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ ایران اب 22 سالہ مہان سدرات کو پھانسی دینے کی تیاری کر رہا ہے جس پر مظاہرے میں چاقو نکالنے کا الزام لگایا گیا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق ایک اور ایرانی شہری سہند نور محمد کی زندگی کو خطرہ ہے۔ انہیں نومبر میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔
دو گلوکاروں سمن سیدی اور تماج صالحی کو بھی سزائے موت سنائی جا چکی ہے۔
آئی ایچ آر کے مطابق ایران کا لوگوں کو سزائے موت دینا اس کریک ڈاؤن کا حصہ ہے جس کے تحت اب تک سکیورٹی فورسز 458 افراد کو مار چکی ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق اب تک کم از کم 14 ہزار افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔

شیئر: