Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ڈالرز کی کمی، پاکستان نے سفارتی عملے کی تنخواہیں روک دیں

گزشتہ سال بھی سٹیٹ بینک کی جانب سے بعض ممالک کے سفارتی عملے کی تنخواہیں روک لی گئی تھیں (فوٹو: سٹیٹ بینک)
پاکستان کی وزارت خزانہ نے سکوک بانڈز کی ادائیگیوں کے لیے بیرون ملک پاکستانی مشنز کے عملے کی تین ماہ کی تنخواہیں روک دیں۔
مختلف ممالک میں پاکستانی سفارت خانے میں موجود عملے نے اردو نیوز کے رابطہ کرنے پر اس بات کی تصدیق کی ہے کہ بیشتر سفارت خانوں میں تین تین ماہ کی تنخواہیں ادا نہیں کی گئیں اور اس وجہ سے  سفارتی عملے کو معمول کے سفارتی اُمور نمٹانے سمیت اپنے اخراجات پورے کرنے میں بھی شدید دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
برطانیہ میں لندن اور مانچسٹر، فرانس، جرمنی، بیلجئیم، برسلز، ترکیہ میں انقرہ اور اسنتبول، سپین میں میڈرڈ اور عمان میں مسقط سمیت متعدد ممالک میں پاکستانی مشنز تین ماہ سے تنخواہیں ادا نہیں کی گئیں۔
اس حوالے سے متعلقہ حکام نے اردو نیوز کو بتایا ہے کہ ’وزارت خارجہ سے تنخواہیں بن کر نیشنل بینک اور پھر سٹیٹ بینک کے ذریعے متعلقہ ممالک میں پہنچتی ہیں۔‘
’چونکہ یہ تنخواہیں ڈالرز کی شکل میں بیرون ملک منتقل ہونا ہوتی ہیں اور پاکستان میں ذرمبادلہ ذخائر بھی تیزی سے گر رہے تھے۔ روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں بھی اضافہ ہو رہا تھا اس وجہ سٹیٹ بینک نے گزشتہ تین ماہ سے سفارتی عملے کی تنخواہوں کی مد میں جانے والے کروڑوں ڈالرز اپنے پاس روک رکھے ہیں۔‘  
تاہم بیرون ملک تعینات ایک اور سفارت کار کے مطابق ’عملے کی تنخواہوں کے معاملے پر وزارت خارجہ ہیڈکوارٹرز میں رابطہ کیا تو ہمیں بتایا گیا ہے کہ انہوں نے یہ معاملہ وزارت خزانہ کے ساتھ اٹھایا ہوا ہے۔ وزارت خزانہ نے نیشنل بینک اور سٹیٹ بینک کو کہا ہے کہ وہ جتنی جلدی ہو سکے رکی ہوئی تنخواہوں کے لیے فنڈز جاری کریں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اس سلسلے میں آخری رابطے میں یہ بتایا گیا تھا کہ معاملہ جلد ہی حل ہو جائے گا۔ ہم بھی یہ امید کر رہے ہیں کہ یہ مہینہ ختم ہونے سے پہلے تنخواہوں کی ادائیگی ہو جائے گی۔‘ 
اس معاملے پر وزارت خارجہ نے کوئی بھی موقف دینے سے گریز کیا ہے جبکہ وزارت خزانہ کے حکام کا کہنا ہے کہ ’سٹیٹ بینک کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں گزشتہ ایک سال کے دوران 10 اعشاریہ 79 ارب ڈالر کی کمی ہوئی ہے۔ جو دسمبر 2021 میں 17 اعشاریہ 68 ارب ڈالرز تھے جو دسمبر 2021 میں 6 اعشاریہ 71 ارب ڈالرز رہ گئے ہیں۔`
اسی طرح رواں مالی سال کے دوران ترسیلات زر کی شرح میں 8 اعشاریہ 6 فیصد یعنی 9 اعشاریہ 9 ارب ڈالر کی کمی واقعی ہوئی ہے، جبکہ برآمدات میں 3 اعشاریہ 5 فیصد کی کمی ہوئی ہے جو رواں مالی سال کے دوران جولائی سے نومبر کے عرصے میں 11 اعشاریہ 93 ارب ڈالر رہ گئی ہیں۔  
 

ان حالات میں ریگولیٹری اداروں کی جانب سے ایسے اقدامات معمول کی بات ہے (فوٹو: اے ایف پی)

گزشتہ سال بھی سٹیٹ بینک کی جانب سے بعض ممالک کے سفارتی عملے کی تنخواہیں روک لی گئی تھیں جس کے بعد سفارت خانوں کےآفیشل ٹویٹرز ہینڈلز اور فیس بک پیجز پر ایسی ٹویٹس ہوئیں جنہیں بعد ازاں یہ کہہ کر ڈیلیٹ کر دیا گیا کہ اکاؤنٹس کو ہیک کیا گیا تھا۔  
بیرون ملک تعینات ایک سفارتی اہلکار نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’سفارتی عملے کی تنخواہیں مختلف ہیڈز کے تحت بنتی ہیں جن میں بنیادی تنخواہ کے علاوہ غیر ملکی تعیناتی کا الاونس، رہائشی اخراجات الاونس، بچوں کی تعلیم کے لیے الاونس وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔ بعض حالات میں صرف تنخواہ روکی جاتی ہے جبکہ الاونسز مل جاتے ہیں اس وجہ سے زیادہ پریشانی نہیں ہوتی۔ اصل مسئلہ تب بنتا ہے جب یہ تمام الاونسز بھی رک جائیں۔‘  
انھوں نے بتایا کہ ’اس وقت بھی کچھ مشنز میں صرف تنخواہیں روکی گئی ہیں جس وجہ سے عملے کو زیادہ پریشانی کا سامنا نہیں ہے، تاہم کچھ مشنز میں الاونسز کی ادائیگیاں بھی تاخیر کا شکار ہیں جس وجہ سے عملہ شدید مشکلات کا شکار ہے۔‘  
خیال رہے کہ انٹرنیشنل ایئر ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن (ایاٹا) نے گزشتہ ہفتے انکشاف کیا تھا کہ ’پاکستان نے غیرملکی ایئرلائنز کے 225 ملین ڈالر (50 ارب روپے) روک رکھے ہیں۔‘ 
پاکستان سول ایوی ایشن کے ترجمان نے معاملے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا  تھا کہ ’سول ایوی ایشن صرف عمل درآمد یقینی بنانے والا ایک ادارہ ہے جبکہ متعلقہ معاملہ سٹیٹ بینک اور وزارت خزانہ کا ہے۔‘  
ایاٹا نے بھی اس حوالے سے واضح کیا تھا کہ ’ایئرلائنز کو رقوم کی واپسی روکنا کم ہوتے ہوئے زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھانے کا آسان طریقہ ہے۔‘  

شیئر: