Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گوادر میں حالات معمول پر آنے لگے پر ’خوف اور کشیدگی کی فضا برقرار‘

گوادر میں پولیس نے 26 دسمبر کو ’حق دو تحریک‘ کی جانب سے دو ماہ سے جاری دھرنے کو ختم کرانے کے لیے کریک ڈاؤن شروع کیا تھا۔ (فائل فوٹو: عرب نیوز)
بلوچستان کے ضلع گوادر میں ’حق دو تحریک کے احتجاج کے خلاف پولیس کی کارروائی کے پانچویں روز صورتحال معمول پر آنا شروع ہو گئی ہے۔
شہر میں بجلی کی فراہمی بحال ہو گئی ہے اور دکانیں اور مارکیٹیں بھی جزوی طور پر کُھل گئیں ہیں، تاہم انٹرنیٹ اور موبائل فون سروس بدستور معطل ہے۔
پولیس کی جانب سے ’حق دو تحریک‘ کے رہنماؤں کو گرفتار کرنے کے لیے چھاپوں کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔
پولیس نے ایک صحافی کو بھی تین بیٹوں سمیت گرفتار کر لیا ہے۔
ایمسنٹی انٹرنیشنل نے گوادر میں مظاہرین کی گرفتاریوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے جبکہ جماعت اسلامی نے ملک بھر میں گوادر میں حکومتی اقدامات کے خلاف احتجاج کیا ہے۔
گوادر کے ایک رہائشی نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ٹیلی فون پر اردو نیوز کو بتایا کہ ’جمعے کو دکانیں کھلنا شروع ہو گئیں لیکن اس کے باوجود خوف اور کشیدگی کی فضا پائی جاتی ہے۔ سڑکوں پر ٹریفک کم ہے اور لوگ گھروں پر رہنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔‘
’اشیائے خورد و نوش کی دکانوں پر لوگوں کا رش دیکھا گیا کیونکہ چار دنوں سے دکانیں اور مارکیٹیں بند ہونے سے آٹے، چینی، گھی سمیت اشیا کی قلت پیدا ہو گئی تھی۔‘

پولیس نے ’حق دو تحریک‘ کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمان کی گرفتاری کے لیے متعدد مقامات پر چھاپے مارے ہیں۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

انہوں نے کہا کہ ’حق دو تحریک کے کارکنان گرفتاری کے خوف سے روپوش ہیں۔ موبائل فون سروس بند ہونے کی وجہ سے لینڈ لائن فون رابطے کا واحد ذریعہ ہے اور صوبے اور ملک کے باقی شہروں میں موجود لوگ گوادر میں اپنے رشتہ داروں کی خیریت کے حوالے سے پریشان ہیں۔‘
ڈپٹی کمشنر گوادر کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’گوادر کے باشعور عوام کے تعاون، سیکورٹی فورسز کی کاوشوں اور حکومتی اقدامات کے نتیجے میں گوادر میں تجارتی اور کاروباری سرگرمیاں بحال ہو رہی ہیں۔ دکانیں، بینک اور پیٹرول پمپ کھل گئے ہیں۔ سربندر (مولانا ہدایت الرحمان کا آبائی علاقہ) میں بھی معمولات زندگی بحال ہو گئے ہیں۔
واضح رہے کہ گوادر میں پولیس نے 26 دسمبر کو ’حق دو تحریک‘ کی جانب سے دو ماہ سے جاری دھرنے کو ختم کرانے کے لیے کریک ڈاؤن شروع کیا تھا۔
پانچ دنوں کے دوران ’حق دو تحریک‘ کے متعدد رہنماؤں سمیت 100 سے زائد کارکنوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ اس دوران پولیس اور مظاہرین کے درمیان تصادم بھی ہوا، سرکاری املاک کو نقصان پہنچا جبکہ فائرنگ کے نتیجے میں ایک پولیس اہلکار کی موت ہوئی۔
حکومت نے پولیس اہلکار کی موت کا ذمہ دار ’حق دو تحریک‘ کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمان کو قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے اور ان کی گرفتاری کے لیے مختلف مقامات پر چھاپے بھی مارے ہیں۔ تاہم مولانا ہدایت الرحمان کو اب تک گرفتار نہیں کیا جا سکا ہے۔
گوادر سے کچھ فاصلے پر واقع سربندر مولانا ہدایت الرحمان کا آبائی علاقہ ہے جس کی تین دنوں سے بجلی بند کی گئی تھی۔ جبکہ گوادر شہر میں بھی کریک ڈاؤن کی غرض سے ایک رات بجلی بند رکھی گئی۔

پولیس نے صحافی حاجی عبید اللہ کو ’حق دو تحریک‘ کے رہنما ماجد جوہر کو پناہ دینے کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

پولیس ذرائع نے بتایا ہے کہ ’پولیس نے حق دو تحریک کے متعدد کارکنوں کو رہا کر دیا ہے۔‘
اطلاعات کے مطابق پولیس نے ’حق دو تحریک‘ کے رہنماؤں اور فعال کارکنوں کو پناہ دینے والوں کے خلاف بھی کارروائی کی ہے اور اس الزام میں گوادر کے صحافی حاجی عبید اللہ کو تین بیٹوں سمیت گرفتار کر لیا ہے۔
گوادر کے ایک اور صحافی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ ’حکومت نے انٹرنیٹ اور موبائل فون سروس بند کر کے احتجاج کی کوریج کو روکنا چاہتی ہے۔ اس سلسلے میں گوادر کے صحافیوں پر دباؤ ڈالا جارہا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’حاجی عبید اللہ گوادر میں جاری احتجاج کی خبریں کراچی کے ایک اخبار کے لیے رپورٹ کر رہے تھے اس لیے انہیں پکڑا گیا، لیکن ان پر الزام حق دو تحریک کے فعال رہنما ماجد جوہر کو پناہ دینے کا لگایا ہے۔‘
’حاجی عبید اللہ نے پولیس کو بتایا کہ سی سی ٹی وی فوٹیجز سے تصدیق کی جا سکتی ہے کہ انہوں نے ماجد جوہرکو گھر کے دروازے سے ہی واپس بھیج دیا تھا، اور پناہ اور موٹر سائیکل دینے سے معذرت کر لی تھی لیکن اس کے باوجود پولیس نے انہیں بیٹوں سمیت پکڑ لیا۔‘
گوادر کے صحافی کے مطابق ’گوادر پریس کلب کے صحافیوں کے احتجاج پر پولیس نے گرفتار صحافی کے بیٹوں کو رہا کر دیا تاہم عبید اللہ اب تک پولیس کی قید میں ہیں۔‘
ادھر ’حق دو تحریک‘ کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمان نے نامعلوم مقام سے فیس بک پر جاری ہونے والے بیان میں حکومت کو گوادر میں مظاہرین پر طاقت کے استعمال پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور صورتحال کی ذمہ داری حکومت پر عائد کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اسلام آباد میں عمران خان نے 126 دنوں تک دھرنا دیا، چینی صدر کا دورہ منسوخ ہوا، ریڈ زون طویل عرصہ تک بند رکھا گیا مگر اس کے باوجود اسٹیبلشمنٹ نے بریانی پیش کی، جبکہ بلوچستان میں پُرامن احتجاج اور حقوق کے لیے آواز اٹھانے والوں پر بدترین تشدد کیا گیا۔‘
انہوں نے سوال کیا کہ بلوچستان کے لوگوں کے ساتھ ’امتیازی سلوک‘ کیوں کیا جا رہا ہے۔
جماعت اسلامی نے گوادر میں ’حق دو تحریک‘ پر حکومتی کریک ڈاؤن کے خلاف ملک گیر احتجاج کیا ہے۔
کوئٹہ میں بھی باچا خان چوک پر احتجاج کیا گیا اور مظاہرین نے حکومتی اقدامات کی مذمت کی۔
انسانی حقوق کے عالمی ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل کے جنوبی ایشیا چیپٹر نے گوادر میں احتجاجی مظاہروں کے بعد بڑے پیمانے پر گرفتاریوں اور ایمرجنسی قوانین کے نفاذ پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
ٹوئٹر پر جاری ایک بیان میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا تھا کہ ’لوگوں کو اپنے تحفظات کے اظہار کے لیے پُرامن احتجاج کا حق ہے اور ریاست پر فرض ہے کہ اس حق کا احترام کرے۔‘

شیئر: