پاکستان تحریک انصاف کے لانگ مارچ کے دوران وزیرآباد کے قریب ہونے والی فائرنگ میں عمران خان سمیت کئی افراد زخمی ہوئے اور ایک کارکن جان سے بھی گیا۔
اس واقعے نے پاکستان کی سیاست میں ایک بھونچال برپا کر رکھا ہے۔ سب سے اہم پہلو اس معاملے کا یہ ہے کہ حملہ آور کے پہلے دن سے پولیس حراست میں ہونے کے باوجود ابھی تک کیس کی تفتیش ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھ سکی۔ اس بات کا اعتراف خود پاکستان تحریک انصاف کی لیڈر شب کر رہی ہے۔
مزید پڑھیں
-
عمران خان پر حملہ: مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے دی گئیNode ID: 718076
-
عمران خان پر حملہ کرنے والے ایک سے زائد تھے: عمر سرفراز چیمہNode ID: 728991
ملزم پنجاب پولیس کی حراست میں ہے جبکہ صوبے میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے۔ یہ واقعہ ایف آئی آر سے لے کر اب تک تنازعات کی زد میں رہا، اور اب واضح طور پر تین مختلف سمتوں کی طرف چل پڑا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف، وفاقی حکومت اور اب عمران خان پر حملے کے ملزم نوید کے موقف نے اس کیس کو قانونی طور پر اور بھی الجھا دیا ہے۔
حملے کے حقائق
گزشتہ برس تین نومبر کو پاکستان تحریک انصاف کے لانگ مارچ پر وزیرآباد کی حدود میں اچانک مجمعے سے فائرنگ ہوئی جس میں عمران خان سمیت ایک درجن افراد زخمی ہوئے اور معظم نامی راہگیر گولی لگنے سے ہلاک ہو گیا۔ حملہ آور ملزم نوید کو اسی وقت حراست میں لے لیا گیا۔
ملزم نوید کا ایک ویڈیو بیان پولیس کی حراست میں جاری ہوا جس میں ’اس نے عمران خان پر حملہ کرنے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اپنا ذاتی فعل قرار دیا۔‘

عمران خان نے واقعے کی ایف آئی آر کے لیے درخواست دی تو اس میں وزیراعظم شہباز شریف، وزیر داخلہ رانا ثنااللہ اور آئی ایس آئی کے ایک افسر میجر جنرل فیصل نصیر کو اس واقعے کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ البتہ پولیس نے اس درخواست پر ایف آئی آر درج نہیں کی۔
بعدازاں پولیس نے اپنی مدعیت میں سپریم کورٹ کے حکم پر ایک ایف آئی آر درج کی جس میں صرف ان واقعات کا ذکر کیا گیا جو فائرنگ کے وقت رونما ہوئے۔
پنجاب حکومت نے تحقیقات کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم بنائی جس کی سربراہی سی سی پی او لاہور غلا م محمود ڈوگر کر رہے ہیں۔
چھ رکنی جے آئی ٹی کے ممبران میں ایس پی پوٹھوہار، آر پی او ڈیرہ غازی خان خرم علی، اے آئی جی مانیٹرنگ احسان اللہ چوہان اورایس پی سی ٹی ڈی نصیب اللہ شامل ہیں۔
پولیس نے ملزم نوید کو پستول بیچنے والے شخص وقاص اور وقاص سے ملوانے والے نوید کے دوست ساجد بٹ کو بھی حراست میں رکھا ہوا ہے۔
تنازع کہاں ہے؟
پہلا تنازع سابق وزیراعظم عمران خان کا اپنی مرضی کی ایف آئی درج کروانے سے شروع ہوا۔
دوسرا تنازع تحقیقاتی ٹیم کا سامنے آیا جو پنجاب حکومت نے اپنی مرضی سے بنائی جسے وفاقی حکومت نے ماننے سے انکار کر دیا۔
اس حد تک تو سیاسی بیان بازی ہر طرف سے ہو رہی تھی، صورت حال اس وقت پیچیدہ ہونا شروع ہوئی جب اس کیس سے جڑی تحقیقات باہر نکلنا شروع ہوئیں۔
پہلے میڈیا اور بعد ازاں پاکستان تحریک انصاف نے خود ان تحقیقات کو عوام کے سامنے پیش کیا۔ جس سے الزامات کے ایک نئے دور کا آغاز ہو گیا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کیا کہتی ہے؟
چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے پانچ جنوری کو ایک ٹی وی خطاب میں اس کیس میں ہونے والی اب تک کی تحقیقات میڈیا کے سامنے رکھتے ہوئے کہا کہ ’میرے پر قاتلانہ حملہ سوچ سمجھی سازش تھی، پہلے توہین مذہب سے متعلق ویڈیوز جاری کی گئیں، پھر سلمان تاثیر کی طرح قتل کرنے کی سازش تیار کی گئی۔ تین شوٹر تھے۔ معظم کو لگنے والی گولی ملزم نوید کے لیے تھی۔‘
پی ٹی آئی چیئرمین نے پولیس تحقیقات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’قریب کی چھتوں سے بھی گولیوں کے خول ملے تھے۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ ایک مکمل منصوبہ بندی تھی۔‘
پنجاب کے وزیر داخلہ عمر سرفراز چیمہ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’ملزم حد سے زیادہ تربیت یافتہ ہے اور وہ اپنے اس بیان سے پیچھے نہیں ہٹ رہا کہ اس نے یہ سب تن تنہا کیا ہے۔‘
’جس طرح اس کا ویڈیو بیان فوری جاری کیا گیا جو کہ اب ثابت ہو گیا ہے کہ ڈی پی او کے دفتر میں ریکارڈ کیا گیا۔ اب اور کیا ثبوت رہ گیا ہے سازش کے بارے میں۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ جے آئی ٹی حکومت نے اپنی مرضی سے بنائی ہے، ہر چیز کی رسائی پولیس کے پاس ہے تو اس سازش کی مکمل تحقیقات کب سامنے لائی جائیں گی؟ تو ان کا کہنا تھا ’جے آئی ٹی کے ساتھ کوئی تعاون ہی نہیں کر رہا۔ ڈی پی او نے بیان نہیں دیا۔ سی ٹی ڈی اسی رات ملزم کو وزیرآباد سے اٹھا کر لے کر آئی۔ پھر ایک ویڈیو بیان جاری کیا اور وہ افسر بھی جے آئی ٹی کے سامنے پیش نہیں ہوا۔‘

انہوں نے بتایا ’ملزم کے پولی گراف ٹیسٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ وہ جو بیان دے رہا ہے وہ جھوٹ بول رہا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اس نے خود سے ہی یہ حملہ کیا ہوا۔‘
وفاقی حکومت کا موقف
عمران خان پر حملے کے لیے بنائی گئی جے آئی ٹی نے براہ راست تو کوئی تفصیلات میڈیا کے ساتھ شیئر نہیں کی ہیں اور نہ ہی عدالت میں ابھی تک اپنی تحقیقات کے حوالے سے کوئی ٹھوس مواد جمع کروایا ہے۔ البتہ پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کی طرف سے سامنے آنے والی تفتیش کو وفاقی حکومت نے رد کر دیا ہے۔
وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ ’یہ عمران خان کی ذاتی جے آئی ٹی ہے جو صرف وہی لکھے گئی جو خان صاحب کو پسند ہے۔ ایسی کون سی جے آئی ٹی ہے جو میں صرف پولیس کے افسران شامل ہوتے ہیں؟ اس کیس میں کسی قسم کی کوئی شفافیت نہیں ہے۔ تحقیقات میں اگر کوئی رکاوٹ ڈال رہا ہے تو وہ خود ان کا وزیراعلٰی پرویز الٰہی ہے۔‘
’پی ٹی آئی بار بار ڈی پی او گجرات کا نام لے رہی ہے تو کیا اس کو ہم نے لگایا ہوا ہے؟ اس کو تو پرویز الٰہی نے لگایا ہے۔ یہ جان بوجھ کر کیس کو طُول دینا چاہتے ہیں اور لٹکا کر سیاسی فائدہ حاصل کر رہے ہیں۔‘
ملزم کا بیان
عمران خان اور ان کے ساتھیوں پر حملے کے ملزم نوید کا بیان ان کے وکیل میاں داؤد کے ذریعے پہلی مرتبہ سامنے آیا ہے۔ اس سے پہلے پولیس حراست میں ان کے ویڈیو بیانات جاری کیے گئے تھے۔
میاں داؤد نے بتایا کہ ’میری آخری ملاقات ملزم سے تین جنوری کو ہوئی جس میں اس نے بتایا کہ اس پر پولیس نے بدترین تشدد کیا ہے۔ اس کا بھائی بہن اور ماں بھی پولیس کی حراست میں ہیں۔‘
