Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایرانی حکومت مظاہرین سے نمٹنے پر منقسم دکھائی دیتی ہے: تجزیہ کار

ایرانی حکومت 14 مظاہرین کو سزائے موت سنا چکی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
ایران میں کئی ماہ سے جاری احتجاج  کو دبانے کے لیے اپنائی گئی پالیسی پر حکومت منقسم دکھائی دیتی ہے۔ 
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق تجزیہ کاروں کی نظر میں مظاہرین سے نمٹنے کے لیے حکومتی پالیسی میں اتار چڑھاؤ پایا جاتا ہے جس سے محسوس ہوتا ہے کہ اندرونی سطح پر بھی اس حوالے سے بحث جاری ہے۔
امریکی یونیورسٹی ڈینور میں سینٹر برائے مشرق وسطیٰ کے ڈائریکٹر نادر ہاشمی کا کہنا ہے کہ ایرانی حکومت سے متضاد پیغامات مل رہے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے حکومت کے اندر بھی ایک بحث چل رہی ہے کہ مظاہرین سے کیسے نمٹا جائے۔
انہوں نے کہا کہ اکثر آمرانہ حکومتوں میں جارحانہ یا معتدل پالیسیوں کی حمایت کرنے والے دونوں طرح کے افسران پائے جاتے ہیں۔
سزائے موت سنائے گئے متعدد مظاہرین کے خلاف دوبارہ مقدمہ چلانے اور احتجاج میں شریک ہونے والی چند اہم شخصیات کی رہائی سے ظاہر ہوتا ہے کہ کچھ حکومتی عہدیدار نرم پالیسی کے حامی ہیں۔
لیکن سنیچر کو سکیورٹی اہلکار کے قتل میں ملوث دو افراد کو پھانسی دیے جانے سے واضح ہے کہ سخت پالیسی کا حامل حکومتی دھڑہ بھی سرگرم ہے۔
16 ستمبر کو کرد ایرانی شہری مہسا امینی کی سکیورٹی فورسز کی حراست میں ہلاکت کے بعد نہ صرف ایران بلکہ دیگر ممالک میں بھی بڑے پیمانے پر مظاہرے شروع ہو گئے تھے۔
ملک گیر مظاہروں میں شہریوں نے اسلامی حکومت کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے۔

سزائے موت کے باوجود ایران میں مظاہرین سڑکوں پر نکلے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

مظاہروں کے دوران سینکڑوں کی تعداد میں ایرانی شہری ہلاک جبکہ ہزاروں کو جیلوں میں ڈالا جا چکا ہے۔ 
ایرانی حکومت حراست میں لیے گئے مظاہرین میں سے 14 کو سزائے موت سنا چکی ہے جبکہ ان میں سے چار کی سزا پر عمل درآمد ہوا ہے اور 6 پر دوبارہ مقدمہ چلانے کا اعلان کیا ہے۔
امریکی نژاد ایرانی ماہر اور کتاب کے مصنف مہرزاد بروجردی نے کہا کہ ایرانی حکومت کو معلوم ہے کہ بڑے پیمانے پر پھانسیاں زیادہ سے زیادہ افراد کو اکسانے کا سبب بنیں گی کہ وہ سڑکوں پر نکلیں، جبکہ دوسری جانب عوام کو خوفزدہ کرنے کے لیے بھی پھانسی کی سزا کو آلے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔
برطانوی یونیورسٹی میں مشرق وسطیٰ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ سزا یافتہ افراد کے خلاف دوبارہ مقدمہ چلانے کے اعلان سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت پر اندرونی اور بیرونی دباؤ بڑھ رہا ہے۔

شیئر: