Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی ٹیم کے لیے جدید بین الاقوامی ڈیٹ پام ٹیکنالوجی ایکسی لینس ایوارڈ

ایوارڈ ٹیم کے فائبر آپٹک ڈسٹری بیوٹڈ ایکوسٹک سینسر کے اعتراف میں دیا گیا (فوٹو عرب نیوز)
کنگ عبداللہ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (کاوسٹ )اور الاحسا میں قائم کھجوروں کے مرکز کی ایک ٹیم کو 2022 کا جدید بین الاقوامی ڈیٹ پام ٹیکنالوجی ایکسی لینس پرائز دیا گیا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق نیشنل سینٹر فار پام اینڈ ڈیٹس کی جانب سے دیا گیا یہ ایوارڈ ٹیم کے فائبر آپٹک ڈسٹری بیوٹڈ ایکوسٹک سینسر کے اعتراف میں دیا گیا جو کھجور کے درختوں میں سرخ کھجور کی سرسری کا  پتہ لگانے میں استعمال ہوتا ہے۔
سرخ کھجور کے انفیکشن سے نمٹنا مشرق وسطیٰ، جنوب مشرقی ایشیا، یورپ اور دنیا کے دیگر حصوں میں ایک دیرینہ مسئلہ رہا ہے۔
جیتنے والی ٹیم میں کنگ عبداللہ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فوٹوونکس لیبارٹری کے ڈاکٹر اسلام عشری، ڈاکٹر چون ہانگ کانگ، پروفیسر بون ایس اوئی، ڈاکٹر یوسف الفھید اور پی ڈی سے انجینئر عبدل عبدالمنعم الشواف شامل تھے جو وزارت ماحولیات، پانی اور زراعت کے تحت کام کرتی ہے۔
جیتنے والی ٹیم کو دو لاکھ ریال انعام دیا گیا۔ ایوارڈ کا اعلان تیسری بین الاقوامی ڈیٹ کانفرنس اور نمائش میں کیا گیا جو 7 سے 10 دسمبر تک ریاض میں جاری رہی۔
ڈاکٹر اسلام عشری نے کہا کہ ٹیم کو اس باوقار ایوارڈ جیتنے پر فخر ہے۔ انہوں نے فوٹوونکس لیبارٹری اور پی ڈی سی میں اپنے ساتھیوں کو خراج تحسین پیش کیا جنہوں نے ٹیکنالوجی کی ترقی، جانچ اور تعیناتی میں مدد کی۔
انہوں نے کہا کہ ’یہ پہچان ہمیں اس ٹیکنالوجی کو بہتر بنانے اوراسے ایک نئی سطح تک آگے بڑھانے کی تحریک دیتی ہے‘۔
نیشنل سینٹر فار پام اینڈ ڈیٹس کے مطابق اس ایونٹ نے ’ان غیر معمولی سپر فروٹ کی محفوظ پیداوار اور تجارت کو بڑھانے کے لیے سائنٹیفک علم اور جدید ٹیکنالوجی کے تبادلے کے لیے سائنسی تحقیق اور تجارتی حکمت عملی کا ایک منفرد امتزاج فراہم کیا‘۔
مملکت تقریباً 33 ملین کھجور کے درختوں کا گھر ہے جو سالانہ تقریباً 1 ملین ٹن یا عالمی پیداوار کا 20 فیصد کھجور پیدا کرتی ہے۔
صرف مشرقِ وسطیٰ کے خطے میں ہر سال تقریباً 8 ملین ڈالر سرسری کے انفیکشن سے لڑنے کے لیے خرچ کیے جاتے ہیں۔

 ٹیسٹ ایپلی کیشنز سینسر سسٹم کی حساسیت کو بہتر بنانے میں مدد کرے گی( فودٹو عرب نیوز)

ڈاکٹر اسلام عشری نے کہا کہ ’ہماری آر پی ڈبلیو کا پتہ لگانے والی ٹیکنالوجی فائبر آپٹک ڈسٹری بیوٹڈ ایکوسٹک سینسر کا استعمال کرتی ہے۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا طریقہ ہے جو  دیگر طریقوں کے مقابلے میں زیادہ توسیع پذیر طریقہ پیش کرتا ہے جیسے کہ مائیکروفون پروب، کمپیوٹر پر مبنی ٹوموگرافی اور بصری معائنہ‘۔
ڈاکٹر چون ہانگ کانگ نے کہا کہ ٹیم نے انفرادی درختوں کے تنوں کے ارد گرد فائبر آپٹک کیبلز کا استعمال کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’ ٹرنک کے اندر سرسری کے لاروے سے پیدا ہونے والے صوتی سگنلز کو کیبل کے ذریعے اٹھایا جا سکتا ہے اور اسے دوبارہ تفتیشی نظام میں منتقل کیا جا سکتا ہے‘۔
’ اس کے بعد اکٹھے کیے گئے سگنلز کا تجزیہ کیا جاتا ہے اور مشین لرننگ الگورتھم کے ذریعے اس پر کارروائی کی جاتی ہے تاکہ ہر درخت کی انفیکشن کی کیفیت کی نشاندہی کی جا سکے‘۔
ڈاکٹر اسلام عشری اور ڈاکٹر چون ہانگ کانگ اب مملکت کے اندر مختلف تنظیموں کے ساتھ کام کر رہے ہیں جن میں پی ڈی سی، میوا، نیوم، رائل کمیشن فار العلا اور تبوک ایگری کلچرل ڈویلمپنٹ کمپنی شامل ہیں۔
یہ ٹیسٹ ایپلی کیشنز سینسر سسٹم کی حساسیت کو بہتر بنانے میں مدد کریں گی تاکہ انہیں بڑے پیمانے پر فارموں پر استعمال کیا جا سکے۔

شیئر: