Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہمارا ذہنی تعلق تھا، ٹوٹ گیا تو ساتھ کام نہ کر سکے: جاوید اختر

جاوید اختر اور سلیم خان کا شمار انڈیا کے مشہور سکرین رائٹرز میں ہوتا ہے۔ فوٹو: ٹائمز آف انڈیا
معروف شاعر، ادیب اور نغمہ نگار جاوید اختر نے بتایا کہ لکھاری اور شاعر بننے سے پہلے وہ فلموں کے ہدایتکار بننا چاہتے تھے۔
انڈین اخبار ہندوستان ٹائمز کے مطابق ایک حالیہ انٹرویو میں جاوید اختر نے سنہ 1966 میں ریلیز ہونے والی فلم ’سرحدی لٹیرا‘ سے متعلق بتایا کہ وہ اس فلم میں بطور اسٹنٹ ڈائریکٹر اور ڈائیلاگ رائٹر کام کر رہے تھے جب ان کی بالی وڈ سٹار سلمان خان کے والد سلیم خان سے ملاقات ہوئی جو اس فلم میں چھوٹا سا کردار ادا کر رہے تھے۔
جاوید اختر کہتے ہیں ’سلیم صاحب ان چند لوگوں میں سے تھے جو میری بہت حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ اگر میں کہیں اور رہ رہا ہوتا تو اُن سے اتنی ملاقات نہ ہوتی، لیکن اُن کے پاس کمرہ مل گیا تو میں اکثر اُن سے ملنے چلا جاتا تھا۔‘
’شروع میں جب ہم ناکام لوگ تھے، محنت کر رہے تھے تو بالکل ایک تھے۔ ہمارا کوئی دوست نہیں تھا۔ ہم صبح سے شام تک بیٹھ کر کام کرتے تھے، رات کو کھانا اکٹھے کھاتے تھے۔ لیکن جب کامیابی آئی تو نئے نئے لوگ زندگی میں آنا شروع ہوگئے اور ہمارا دائرہ ٹوٹ گیا۔‘
جاوید اختر نے سلیم خان کے ساتھ مزید کام نہ کرنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمارا ذہنی تعلق تھا وہ ٹوٹ گیا۔ توپھر وہ کام نہیں ہو سکتا تھا۔‘
جاوید اختر اور سلیم خان کا شمار انڈیا کے مشہور سکرین رائٹرز میں ہوتا ہے جنہوں نے شعلے، ڈان، زنجیر، اور دیوار جیسی بلاک بسٹر فلموں میں بطور سکرین رائٹر کام کیا۔
سلیم خان کے ساتھ گزارے ہوئے وقت کی یاد تازہ کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ’وہ ساحل سمندر پر گھنٹوں وقت گزارتے اور اس جگہ پر بیٹھنے کی وجہ سے انہیں مزید نئے خیالات ملنے شروع ہوگئے۔‘

جاوید اختر نے کہا کہ ہمارا ذہنی تعلق تھا وہ ٹوٹ گیا جس کے بعد کام نہیں ہو سکتا تھا۔ ( فوٹو: انسٹاگرام شبانہ اعظمی)

بطور گمنام رائٹر اپنی پہلی کمائی جو کہ پانچ ہزار روپے تھی اس کے بارے میں جاوید اختر نے کہا کہ ’ہمیں تو لگا کہ لاٹری لگ گئی، اتنا پیسہ تو آج تک دیکھا نہیں تھا، ہم نے ایک دن بیٹھ کر نہیں طے کیا تھا کہ کل سے ہم پارٹنر ہوں گے، یہ وقت کے ساتھ ساتھ ہوگیا۔‘
خیال رہے اپنے پُرانے انٹرویو میں ایک مرتبہ سلیم خان نے اسی  موضوع پر بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہر ڈبے کی ایک تاریخ ہوتی ہے جس کے بعد وہ استعمال کے قابل نہیں رہتا، اس کی بھی ایسی ہی تھی۔‘
’ہم ایک مرتبہ جاوید کے گھر کے پاس تھے جب اس نے بتایا کہ وہ الگ ہونا چاہتے ہیں۔ وہ یہ کافی دیر سے سوچ رہے تھے۔ میں کھڑا ہوا، اس سے ہاتھ ملایا اور اپنی کار کی جانب چل پڑا۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’وہ بھی ساتھ چلنے لگا تاہم میں نے اسے روکا اور اس کے گھر کی جانب بھیج دیا کہ میں اپنا خیال رکھ سکتا ہوں، میں نے گھر میں کچھ نہیں بتایا، اگلے دن سب پوچھنے لگے کہ کیا یہ تعلق ختم ہوگیا ہے؟ جس کے بعد میں نے جاوید سے پوچھا کہ کیا اس نے سب کو بتایا ہے؟ اس نے کہا کہ صرف کچھ دوستوں کو بتایا ہے، جس کے بعد میں نے بھی کچھ دنوں بعد اس بات کا اعلان کردیا۔‘

جاوید اختر اور سلیم خان کا شمار انڈیا کے مشہور سکرین رائٹرز میں ہوتا ہے. (فوٹو: ہندوستان ٹائمز)

سلیم خان نے بتایا تھا کہ ’جاوید چاہتے تھے کہ ہم گانوں کی شاعری بھی اکٹھے لکھیں۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ میرا نام اس چیز میں شامل ہو جس میں مجھے کوئی دلچسپی نہیں ہے اور جس کے بارے میں مجھے علم نہیں ہے۔ میں نے انہیں کہا کہ اس پارٹنرشپ کو صرف سکرپٹ لکھنے تک محدود رکھتے ہیں تاہم وہ اکیلے گانے لکھ سکتے ہیں۔‘
واضح رہے جاوید اختر اور سلیم خان کا شمار انڈیا کے مشہور سکرین رائٹرز میں ہوتا ہے جنہوں نے شعلے، ڈان، زنجیر، اور دیوار جیسی بلاک بسٹر فلموں میں بطور سکرین رائٹر کام کیا۔

شیئر: