Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پولیٹیکل انجینیئرنگ شروع، آگے کیا ہو گا؟ ماریہ میمن کا کالم

پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری پر الیکشن کمشنر کو دھمکیاں دینے کا الزام ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
دو صوبوں میں نگران حکومتیں قائم ہو چکی ہیں۔ پنجاب ہی اصل میدانِ جنگ ہے جہاں پر نگران حکومت کے یکطرفہ اور جانبدار ہونے کی تردید وہ خود بھی نہیں کر رہے۔ خیبر پختونخوا میں نگران حکومت تو متفقہ طور پر آئی مگر اس اتفاق میں شروع سے ہی دراڑیں نظر آ رہی ہیں۔
دوسری طرف صوبائی الیکشن جو کہ آئینی تقاضا ہے، کے انعقاد پر بڑے بڑے سوالیہ نشان ہیں۔ گورنر خیبر پختونخوا سادگی یا بے باکی سے فرما چکے ہیں کہ الیکشن کی آئینی ذمہ داری سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں بلکہ یہ الیکشن کمیشن اور اسٹیبلشمنٹ کی صوابدید اور ذمہ داری ہے۔
پی ٹی آئی، حکومتوں کے جاتے ساتھ ہی نشانے پر ہے۔ فواد چوہدری الیکشن کمیشن کی درخواست پر گرفتار ہیں اور حوالات، عدالت اور ہسپتال کے درمیان گھمائے جا رہے ہیں۔
پنجاب کے وزیر اعلٰی کے انتخاب اور اس کے بعد لاہور اور اسلام آباد کی انتظامیہ اور پولیس کی جانب سے فواد چوہدری کے حوالے سے پُھرتیوں کو دیکھ کر واضح ہے کہ پولیٹیکل انجینیئرنگ کا باقاعدہ آغاز ہو گیا ہے۔
یہ بھی واضح ہے کہ انجینیئرنگ کے باقی لوازمات بھی ساتھ ساتھ آزمائے جائیں گے۔ نااہلیوں اور گرفتاریوں سے لے کر نئی پارٹیوں کے نمودار ہونے تک کئی سنگ میل عبور کیے جائیں گے۔  
پولیٹیکل انجینیئرنگ کا سب سے پہلا سنگِ میل تو صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن کے التوا کی خبروں میں ہے۔ مردم شماری اور حلقہ بندیوں کا ذکر بھی بار بار ہو رہا ہے۔
الیکشن کمیشن اور نگران حکومتیں ویسے تو خوب سر گرم ہیں مگر الیکشن کے شیڈول کا دور دور تک پتہ نہیں۔ یہ سب کچھ اس وقت ہو رہا ہے جب آئین اور آئینی تقاضے واضح اور غیر مبہم ہیں۔

 ضمنی انتخابات میں قومی اسمبلی کی 33 نشستوں پر عمران خان لڑیں گے۔ فوٹو: اے ایف پی

دونوں برسرِ اقتدار جماعتیں جمہوریت اور ووٹ کی عزت کی دعوے دار بھی ہیں۔ خبریں یہ بھی ہیں کہ پیپلز پارٹی کی طرف سے اندرون خانہ الیکشن کو ملتوی نہ کرنے کا ہی مشورہ دیا گیا ہے۔
آئینی طور پر اب قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن اسی وقت ساتھ ساتھ یا قریب قریب ہو سکتے ہیں جب قومی اسمبلی اور دیکر دو صوبائی اسمبلیاں بھی تحلیل ہوں۔
قومی اسمبلی کی قبل از وقت تحلیل کا امر بھی حکومت کی طرف سے اس وقت خارج از امکان ہے جبکہ اقتصادی طور پر حکومت کے پاس دکھانے کے لیے کچھ نہیں ہے۔  
پولیٹیکل انجینیئرنگ کا دوسرا سنگِ میل لیڈر شپ کی نا اہلی اور گرفتاری ہے۔ عمران خان کے خلاف ایک فیصلہ آ چکا ہے۔ کئی کیس زیر التوا ہیں۔ ہر روز گرفتاری کی خبریں یا افواہیں آ رہی ہیں۔
گرفتاری کی صورت میں شاید سیاسی طور پر نقصان تو نہ ہو مگر اگر الیکشن کا دور ہو تو گرفتاری سے کارکنوں کے حوصلے اور توجہ بٹ جاتی ہے۔ اس لیے یہ امکان بھی قوی ہے کہ اگر یہی ٹرینڈ جاری رہا تو الیکشن کے قریب گرفتاری یا گرفتاریاں متوقع ہوں گی۔ ابھی سے مقدمے، عدالتوں کے چکر اور ای سی ایل کا دور پورے زور و شور سے شروع ہو چکا ہے۔ آگے اس میں اضافہ ہی نظر آ رہا ہے۔ 
پارٹیوں کی توڑ پھوڑ اور نئے نئے دھڑوں کا نمودار ہونا بھی اس سارے عمل ایک اہم حصہ ہوتا ہے۔ اس کا مظاہرہ تو کراچی میں ایم کیو ایم کے متحارب دھڑوں کے اچانک اکھٹے ہونے کی صورت میں آیا اگرچہ بلدیاتی الیکشن میں یہ نیا اتحاد پیپلز پارٹی کے ہاتھوں ہی اپنی پتنگ کٹوا بیٹھا۔

نگران وزیراعلٰی پنجاب کی تقرری کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے۔ فوٹو: اے پی پی

مستقبل قریب میں اس طرح کے کئی اتحاد متوقع ہیں۔ پی ٹی آئی کے ممبران اسمبلی ابھی تک پارٹی کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ نظریات کے ساتھ ساتھ وہ اپنے لیے عملی فائدہ دیکھ رہے ہیں۔
پی ٹی آئی کی مقبولیت کی وجہ سے کئی کمزور اور ڈبل مائنڈڈ الیکٹیبلز بھی اپنی جگہ مضبوط کھڑے ہیں۔ یہاں پر انجینیئرنگ کو سب سے بڑا چیلنج ہو گا کیونکہ الیکشن سے پہلے ہی بہت سے لوگ اپنی سیاسی پوزیشن کا تعین کر چکے ہوتے ہیں۔ البتہ آخر میں اصل میدان تو الیکشن کے دن ہی لگے گا۔  
سوال مگر یہ ہے کہ بار بار کے تجربوں کے بعد وہی کھیل دوبارہ کیوں کھیلا جا رہا ہے؟ ایسا نہیں کہ یہ سب پہلی بار ہو رہا ہے۔ اس سے پہلے بھی یہ کھیل کئی بار کھیلا جا چکا ہے۔ صرف کھلاڑیوں کی پوزیشن تبدیل ہوئی ہے۔
حیرت البتہ ان کھلاڑیوں پر بھی ہے جو پہلے اس کھیل کا ہدف رہ چکے ہیں۔ یہاں پہ سوال ان کے اصولوں اور جمہوریت کے ساتھ کمٹمنٹ کا بھی ہے۔ کیا ان کی سیاست کا مقصد صرف کسی بھی طریقے سے اقتدار میں آنا ہے؟
اگر ایسا ہے تو پھر ہماری سیاست اور ہمارا ملک اسی گرداب میں پھنسے رہیں گے۔ ایک کے ایک پارٹی اقتدار میں آ کر اپنے مخالف کو ہر صورت میں میدان سے باہر رکھنے میں اپنی ساری توانائیاں صرف کر دے گی۔

شیئر: